رسائی کے لنکس

لندن کی سڑکوں پر لومڑیوں کا راج


لومڑی چونکہ لومڑی ہے اس کا شہری یا جنگلی ہونا معنی نہیں رکھتا۔ گذشتہ برس ایک خطرناک لومڑی نے ہیکنی کے ایک گھر میں گھس کر نوزائیدہ بچی کی انگلی کاٹ ڈالی تھی

لومڑی کی چالاکی اور مکاری کی کہانیاں تو ہم سب نے ہی سن رکھی ہیں۔ لیکن، حقیقت میں اس عیار مخلوق سے نمٹنا کس قدر مشکل ہے، اس بات کا اندازہ لندن کے باسیوں سے بہترکوئی نہیں جانتا۔

ویسے تو سڑکوں پر پھرنے والے آوارہ کتے یا جنگلی بلیوں سے ہم سب کی واقفیت پرانی ہے۔ لیکن، لندن میں قدم رکھنے والے پردیسیوں کو لومڑی سے ملاقات کا شرف بنا خواہش کے ہی حاصل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر، شام کے اندھیرے میں لومڑی کی تیز نظریں آنے والوں کا سواگت کچھ اس طرح کرتی ہیں کہ آوارہ کتوں پر پتھر اٹھا کر مارنے والے لوگ لومڑی کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اوپر سے جنگلی حیات کےقوانین کی رو سےبنا کسی حملے کے لومڑیوں کو مارنا یا شکار کرنا جرم ہے۔

لومڑی کے حوالے سے لندن کے مئیر بورس جانسن کو بھی پریشانی لاحق رہتی ہے، جو لومڑیوں کو لندن کے لیے مصیبت قرار دیتے ہیں۔دوسری جانب، کونسل بھی ان سے نمٹنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
لومڑی چونکہ لومڑی ہے اس کا شہری یا جنگلی ہونا معنی نہیں رکھتا۔ گذشتہ برس ایک خطرناک لومڑی نے ہیکنی کے ایک گھر میں گھس کر نوزائیدہ بچی کی انگلی کاٹ ڈالی تھی۔ جبکہ، چند سال پہلے بھی معصوم بچوں پر حملے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

برسٹل یونیورسٹی میمل ریسرچ یونٹ کے مطابق، سال 1980 کے قومی اعدا د و شمار کے مطابق، برطانیہ میں شہری لومڑیوں کی کل تعداد لگ بھگ 33,000 ہزار سےتجاوز کرچکی ہے۔ اور، ایک محتاط اندازے کے مطابق، لومڑیوں کی سب سے بڑی کالونیاں لندن اور اس کے مضافات میں آباد ہیں جہاں ان کی کل تعداد تقریبا 10 ہزار بتائی جاتی ہے۔

تاریخی حوالےسے ماہرین کا کہنا ہے کہ لندن میں لومڑیوں کی آمد جنگ عظیم اول کے بعد 1940 میں ہوئی، جس کے بعد، ان کی بڑی بڑی کالونیاں، لندن، برسٹل، کیمبرج میں آباد ہو گئیں۔ چونکہ، لومڑی فطرتاً آرام طلب اورسست واقع ہوئی ہیں، اسی لیے شکار کے بجائے خوراک ڈھونڈ کر کھاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لومڑیوں کو لندن کی سڑکیں اورگلی کوچے بہت بھاتے ہیں، جہاں ان کے لیے، کچرا دانوں میں ہوٹلوں کے بچےکچے سالن، کےایف سی کی باسی چکن کی صورت میں بھرپور ڈنر کا سامان موجود ہوتا ہے۔

ایک مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سرخ لومڑی یا شہری فاکس وزن اور جسامت میں کسی بھیڑیے جیسی نظر آنے لگی ہے، جس کی وجہ وافر مقدار میں حاصل ہونے والی خوراک ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک لومڑی کے لیے اس کےعلاقے میں اندازا 150 گنا زیادہ خوراک موجود ہوتی ہے۔

جہاں تک ان کی عقلمندی کی بات ہے تو چور سپاہی کا کھیل کھیلنے میں لومڑیوں سے کوئی نہیں جیت سکتا۔

لومڑیاں 40 ایکڑ رقبہ زمین تک اپنی ملکیت میں رکھتی ہیں اس علاقے میں کم از کم 399 باغات شامل ہوتے ہیں۔

لہذا ،ایک باغ پر دشمن کی پیش قدمی کو بھانپتے ہوئے یہ جلد ہی دوسرا عارضی ٹھکانہ تلاش کر لیتی ہیں۔ لیکن، اپنے اصل مقام پر کسی دوسری لومڑی کو گھسنے بھی نہیں دیتی ہیں۔

ہیکنی کی رہائشی یاسمین کہتی ہیں کہ لومڑیوں کی وجہ سے انھیں اپنے گارڈن اور پالتو خرگوش کی ہروقت فکر لگی رہتی ہے۔ کیونکہ، ان کے گارڈن کے چھجے کے نیچے ایک لومڑی نے اپنا بسیرا کر رکھا ہے،جو وہاں اپنی سنگت بھی جمع کر لیتی ہے جس کی وجہ سے گارڈن میں شدید بدبو پھیل جاتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ لومڑیاں اپنےعلاقےکی پہچان کے لیےاس خاص قسم کی بدبو کا استعمال کرتی ہے۔ اگرچہ وہ پرائیوٹ پیسٹ کنڑول سےرابطہ میں ہیں۔ لیکن، لومڑی اس قدر چالاک ہوتی ہے کہ دشمن کی بو سونگھتے ہی وہاں سے رفو چکر ہو جاتی ہے۔ لیکن کچھ ہی دن میں واپس آجاتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ لندن میں رہنے والے تمام لوگ لومڑیوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ بلکہ، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو انھیں باقاعدہ پالتو جانور کی طرح کھانا دیتے ہیں۔ شاجیدہ خاتون کہتی ہیں کہ اتنے عشروں سے وہ لومڑیوں کو لندن کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے دیکھ رہی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن، اگر لندن میں لومڑیاں نا ہوتی تو اس شہر میں چوہے لوگوں کا جینا حرام کردیتے۔

گذشتہ دنوں یہ خبر بھی برطانوی اخبارات کی زینت بنی کہ مشرقی لندن کی سڑکوں اور باغات میں ہرن مٹرگشت کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔

اس خبر نے لندن کے رہائشیوں کی فکر میں مزید اضافہ کردیا ہے، جن کا خیال ہےکہ آرام طلب جنگلی جانور اگر اسی طرح لندن کا رخ کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ ہاتھی بھی لندن کی سڑکوں پر گشت کرتے نظر آئیں۔
XS
SM
MD
LG