اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی نے شام کے بحران پر منقسم سلامتی کونسل کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس مسئلے کے بارے میں اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
منگل کو 15 رکنی سلامتی کونسل کے ممبران کے ساتھ دو گھنٹے کی بات چیت کے بعد براہیمی نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے کونسل کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے اس ضمن میں ان سے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
’’شام آہستہ آہستہ تباہ ہو رہا ہے اور تباہی نے خطے کو اسی صورتحال میں دھکیل دیا ہے جو پوری دنیا کے لیے نہایت خراب ہے۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ سلامتی کونسل صرف یہ نہیں کہہ سکتی ہے کہ ان کے درمیان اختلاف ہے اور بہتر وقت کا انتظار کیا جائے۔ میرا خیال ہے اب اس مسئلے پر گرفت مضبوط کرنا ہوگی۔‘‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود شام کے بحران پر قابو پانے کے معاملے پر منقسم ہے۔ روس اور چین کونسل کے اقدامات کو تین دفعہ مسترد کر چکے ہیں جس پر انھیں بین الاقوامی برادری کی طرف سے صدر بشار الاسد کی حکومت کو بچانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
دو سال سے زائد عرصے سے جاری تنازع میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 60 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لخدار براہیمی کا کہنا تھا کہ گزشتہ جون میں جینیوا میں شام کی صورتحال پر بین الاقوامی اجلاس کے اعلامیے میں بہت سے پہلو بحران کے سیاسی حل میں مدد دے سکتے ہیں لیکن ان کے بقول ان کے نفاذ پر سلامتی کونسل کی طرف سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اہم جز مکمل اختیارات کے ساتھ عبوری انتظامیہ کی تشکیل ہے لیکن براہیمی کے بقول اعلامیے میں اس شق کو جان بوجھ کر مشکوک بنا دیا گیا جسے اب مخصوص کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
’’اس شک کو اب دور کرنا ہوگا۔ آپ کو بتانا ہو گا کہ مکمل انتطامی اختیارات سے آپ کی کیا مراد ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے لیے اور بہت سے دوسروں کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے تمام اختیارات اس عبوری حکومت کو منتقل ہوں گے۔‘‘
گزشتہ اگست میں مستعفی ہونے والے خصوصی ایلچی کوفی عنان کی جگہ یہ منصب سنبھالنے والے لخدار براہیمی نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ وہ بھی استعفیٰ دینے کا سوچ رہے ہیں۔
ادھر بدھ کو شام کے تنازع سے متاثر ہونے والے شہریوں کی مدد کے لیے کویت میں بین الاقوامی امدادی اداروں کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے ملک اور بیرون ملک لگ بھگ 50 لاکھ متاثرین کی آئندہ چھ ماہ کے لیے معاونت کے طور پر ڈیڑھ ارب ڈالر کی اپیل کی ہے۔
امریکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر متاثرین کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ساڑھے پندرہ کروڑ ڈالرز کا پہلے ہی اعلان کرچکا ہے۔
منگل کو 15 رکنی سلامتی کونسل کے ممبران کے ساتھ دو گھنٹے کی بات چیت کے بعد براہیمی نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے کونسل کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے اس ضمن میں ان سے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
’’شام آہستہ آہستہ تباہ ہو رہا ہے اور تباہی نے خطے کو اسی صورتحال میں دھکیل دیا ہے جو پوری دنیا کے لیے نہایت خراب ہے۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ سلامتی کونسل صرف یہ نہیں کہہ سکتی ہے کہ ان کے درمیان اختلاف ہے اور بہتر وقت کا انتظار کیا جائے۔ میرا خیال ہے اب اس مسئلے پر گرفت مضبوط کرنا ہوگی۔‘‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود شام کے بحران پر قابو پانے کے معاملے پر منقسم ہے۔ روس اور چین کونسل کے اقدامات کو تین دفعہ مسترد کر چکے ہیں جس پر انھیں بین الاقوامی برادری کی طرف سے صدر بشار الاسد کی حکومت کو بچانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
دو سال سے زائد عرصے سے جاری تنازع میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 60 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لخدار براہیمی کا کہنا تھا کہ گزشتہ جون میں جینیوا میں شام کی صورتحال پر بین الاقوامی اجلاس کے اعلامیے میں بہت سے پہلو بحران کے سیاسی حل میں مدد دے سکتے ہیں لیکن ان کے بقول ان کے نفاذ پر سلامتی کونسل کی طرف سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اہم جز مکمل اختیارات کے ساتھ عبوری انتظامیہ کی تشکیل ہے لیکن براہیمی کے بقول اعلامیے میں اس شق کو جان بوجھ کر مشکوک بنا دیا گیا جسے اب مخصوص کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
’’اس شک کو اب دور کرنا ہوگا۔ آپ کو بتانا ہو گا کہ مکمل انتطامی اختیارات سے آپ کی کیا مراد ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے لیے اور بہت سے دوسروں کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے تمام اختیارات اس عبوری حکومت کو منتقل ہوں گے۔‘‘
گزشتہ اگست میں مستعفی ہونے والے خصوصی ایلچی کوفی عنان کی جگہ یہ منصب سنبھالنے والے لخدار براہیمی نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ وہ بھی استعفیٰ دینے کا سوچ رہے ہیں۔
ادھر بدھ کو شام کے تنازع سے متاثر ہونے والے شہریوں کی مدد کے لیے کویت میں بین الاقوامی امدادی اداروں کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے ملک اور بیرون ملک لگ بھگ 50 لاکھ متاثرین کی آئندہ چھ ماہ کے لیے معاونت کے طور پر ڈیڑھ ارب ڈالر کی اپیل کی ہے۔
امریکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر متاثرین کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ساڑھے پندرہ کروڑ ڈالرز کا پہلے ہی اعلان کرچکا ہے۔