امريکہ، طالبان امن مذاکرات فيصلہ کن مرحلے ميں داخل ہو گئے ہيں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس ماہ کے آخر تک فريقين امن معاہدے پر دستخط کر دیں گے۔
افغان اُمور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گا، جس کی فہرست طالبان پہلے ہی امریکی حکام کے حوالے کر چکے ہیں۔
افغانستان میں اس وقت تقریباً 13000 امریکی فوجیوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر نیٹو اہلکار تعینات ہیں۔ ایک مغربی سفارت کار نے سال کے اوائل میں خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ امریکہ اپنی فوج کی تعداد کو تقریباً 9000 تک لانے کا خواہاں ہے۔
افغان امور پر گہری رکھنے والے تجزيہ کاروں کے مطابق امريکہ اور طالبان کے درميان اعتماد کی فضا قائم ہو گئی ہے اور امن معاہدے پر دستخط بہت قريب ہیں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر اور سينئر صحافی سميع يوسفزئی نے کہا کہ دونوں فريقين کے درميان سب کچھ طے ہو چکا ہے۔ اب يہ طالبان پر ہے کہ وہ معاہدے پر دستخطوں سے قبل اپنی کارروائيوں ميں کس قدر کمی لاتے ہيں۔
سميع يوسفزئی کے بقول جنگ بندی کا آغاز 22 فروری سے ہو گا، اور فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا برقرار رہی تو 29 فروری کو معاہدے پر دستخط ہو سکتے ہیں۔ اُن کے بقول معاہدے کے بعد امریکی فوج کے انخلا کا عمل شروع ہو گا، اور اس دوران طالبان اُن پر حملے نہیں کریں گے۔
امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات بھی شروع ہوں گے۔
ياد رہے کہ امريکہ اور طالبان کے درميان امن کے سلسلے ميں ہونے والے مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے جب امريکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال ستمبر ميں اچانک مرحلہ وار ٹويٹس کرکے طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کر دیے تھے۔
طالبان کے مطابق، ايک ايسے وقت پر جب دونوں اطراف کے نمائندگان کی جانب سے سب کچھ فائنل ہو چکا تھا، امريکی صدر کی جانب سے مذاکرات کو ختم کرنا اُن کے لیے بھی حیران کُن تھا۔
صدر ٹرمپ کے مطابق مذاکرات کی معطلی کا فيصلہ طالبان کی جانب سے کابل حملے کے بعد کيا گيا۔ جس ميں ايک امريکی فوجی سميت 12 افراد ہلاک ہوئے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تاہم سميع يوسفزئی کے مطابق حالات اب بدل چکے ہيں اور اگر گزشتہ تين ماہ کا مشاہدہ کيا جائے تو طالبان نے امریکی تنصیبات پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا۔ اُن کے بقول ایک ہفتے کی جنگ بندی معاہدے کے دوران امریکی حکام یہ بھی مشاہدہ کریں گے کہ طالبان میں اتفاق رائے ہے یا یہ دھڑے بندی کا شکار ہیں۔
سميع يوسفزئی کہتے ہیں کہ امریکہ، طالبان امن معاہدے کے بعد آئندہ ماہ 10 مارچ کو جرمنی میں بین الافغان مذاکرات بھی ہوں گے۔ اُن کے بقول امن معاہدے کا فائدہ افغان عوام کو ہو گا، جو سالہا سال سے جاری لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں۔
دفاعی تجزيہ کار بريگيڈيئر محمود شاہ کے مطابق طالبان اور امريکہ کے درميان ممکنہ امن معاہدہ دير پا نہیں رہے گا۔
وائس آف امريکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ بیرونی قوتیں طالبان کو امن معاہدے پر مجبور کر رہی ہیں۔ محمود شاہ کے بقول معاہدے کے عوض امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے اب بھی ابہام ہے۔ امریکہ، افغانستان میں فوج کی کمی کا اظہار تو کرتا ہے لیکن مکمل انخلا کی بات اب بھی نہیں کرتا۔ اور بعد میں حالات خراب ہونے کی یہ بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
ليکن سميع يوسفزئی اس دليل سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کے مطابق افغانستان ميں عرصہ دراز سے شورش کو روکنے کے لیے اس نوعيت کی سنجيدہ کوشش پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
سميع يوسفزئی پُر اميد ہيں کہ اس بار افغانستان کی تقدير بدل سکتی ہے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ، طالبان امن معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات میں اتفاق رائے اصل چیلنج ہو گا۔ اُن کے بقول اگر طالبان نے دوبارہ حکومت میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تو انہیں سمجھوتا کرنا پڑے گا۔
سميع يوسفزئی کے بقول 1996 میں جب طالبان کی حکومت تھی، تو اُنہوں نے اسلامی قوانین نافذ کیے تھے۔ اگر طالبان نے دوبارہ ایسے مطالبات کیے تو امریکہ، افغان دھڑوں اور عوام کو بھی اس پر اعتراض ہو گا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی طالبان کے ساتھ ایک، دو ہفتوں میں امن معاہدہ طے پانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ فوج کو افغانستان سے نکال لیا جائے۔
'سپرنگ حملوں' سے قبل معاہدے کی کوششیں
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان موسم بہار میں نئی کارروائیوں کا اعلان کرتے ہیں۔ لہذٰا امریکی حکام کی کوشش ہے کہ اس سے قبل امن معاہدہ طے پا جائے۔
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزيہ کار اور سينئر صحافی، احمد رشيد کے مطابق اگر طالبان موسم بہار ميں نئی کارروائیاں کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ تو یہ امن معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ اعتماد کا ہے۔ فریقین تشدد میں کمی کے دعوے تو کر رہے ہیں، لیکن درحقیقت وہ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔
سابق سفارت کار رُستم شاہ مہمند کے مطابق امريکی صدر ٹرمپ کے مواخذے کا معاملہ ختم ہو گيا ہے اور اب ان کی تمام تر توجہ اليکشن کی جانب ہے جس ميں وہ امريکی عوام کو اپنے کارناموں کے بارے ميں باور کرانا چاہتے ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ طالبان کے اندر کچھ ایسے عناصر ہیں، جو امن معاہدے کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن اکثریت چاہتی ہے کہ معاہدہ طے پا جائے، یہی وجہ ہے کہ طالبان بھی جلد اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
ماہرین کے بقول سویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان میں مختلف دھڑوں کی آپس میں لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ لہذٰا اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اگر امریکہ افغانستان سے نکلتا ہے تو یہاں امن برقرار رکھنے کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔