واشنگٹن —
امریکی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات کے باعث، اتوار کو کابل میں امریکی وزیر دفاع چَک ہیگل اور افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے ہونے والی اخباری کانفرنس کو منسوخ کردیا گیا۔
حکام نے سکیورٹی کے اِن خدشات کی وضاحت نہیں کی۔
لیکن، اِس سے قبل آج ہی کے دِن دو خودکش بم دھماکے ہوئےجن میں سے ایک کابل جب کہ دوسرا خوست میں واقع ہوا۔ خوست کے حملے میں 19 افراد ہلاک ہوئے۔ کابل میں ہونے والے بم حٕملے کا ہدف افغان وزارتِ دفاع تھا، ایسے میں جب ہیگل دارالحکومت کے دورے پر تھے۔
منسوخ ہونے والی آج کی اخباری کانفرنس ہیگل کی تازہ ترین تقریب تھی، جب کہ پینٹاگان کے نئے سربراہ کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔
اِس سے قبل، اتوار کے ہی روز صدر کرزئی نے طالبان پر الزام لگایا کہ ہفتے کی طرز کے حملے کرکے وہ امریکہ کی خدمت کر رہے ہیں، تاکہ افغانوں میں خوف طاری ہو اور غیر ملکی افواج 2014ء کی ڈیڈلائن کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہیں۔
افغانستان میں تعینات امریکہ کے اعلیٰ ترین فوجی، جنرل جوزف ڈنفرڈ نے فوری طور پر صدر کے اِس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ 12برسوں کے دوران، ہم نےسخت جنگ لڑی ہے، بہت زیادہ لہو دیا ہے، کبھی ذہن میں نہیں آیا کہ شدت پسندی یا عدم استحکام ہمارے کسی فائدے کا ہو سکتا ہے۔
کرزئی حکومت نے یہ بھی الزام لگایا کہ افغانوں کے شانہ بشانہ لڑنے والی امریکی قیادت والی افواج سے غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں، اور وہ یونیورسٹی کے طلبا تک کو گرفتار کر رہی ہے۔
ہیگل ایک ایسے وقت افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں جب وہ امریکی تحویل میں چلنے والی حراستی تنصیبات کا کنٹرول خود سنبھالنا چاہتا ہے، اور غیرملکی فوج کے انخلا میں تیزی لانے کے لیے کوشاں ہے۔
ہفتے کے روز ہونے والی ایک اور تقریب جس میں امریکی تحویل میں قائم کلیدی حراستی تنصیب کو افغانستان کے حوالے کیا جانا تھا، وہ بھی منسوخ کی گئی، ایسے میں جب دونوں حکومتوں کے مابین ایک معاہدہ آگے نہ بڑھ سکا۔
گذشتہ ماہ، ہیگل کے پیش رو لیون پنیٹا نے کہا تھا کہ نیٹو کے اتحادی ممالک اِس بات پر غور کر رہے ہیں کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں 8000سے 12000تک بین الاقوامی فوجیں تعینات رکھی جائیں۔
اِس وقت افغانستان میں نیٹو کی فوج کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے۔
حکام نے سکیورٹی کے اِن خدشات کی وضاحت نہیں کی۔
لیکن، اِس سے قبل آج ہی کے دِن دو خودکش بم دھماکے ہوئےجن میں سے ایک کابل جب کہ دوسرا خوست میں واقع ہوا۔ خوست کے حملے میں 19 افراد ہلاک ہوئے۔ کابل میں ہونے والے بم حٕملے کا ہدف افغان وزارتِ دفاع تھا، ایسے میں جب ہیگل دارالحکومت کے دورے پر تھے۔
منسوخ ہونے والی آج کی اخباری کانفرنس ہیگل کی تازہ ترین تقریب تھی، جب کہ پینٹاگان کے نئے سربراہ کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔
اِس سے قبل، اتوار کے ہی روز صدر کرزئی نے طالبان پر الزام لگایا کہ ہفتے کی طرز کے حملے کرکے وہ امریکہ کی خدمت کر رہے ہیں، تاکہ افغانوں میں خوف طاری ہو اور غیر ملکی افواج 2014ء کی ڈیڈلائن کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہیں۔
افغانستان میں تعینات امریکہ کے اعلیٰ ترین فوجی، جنرل جوزف ڈنفرڈ نے فوری طور پر صدر کے اِس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ 12برسوں کے دوران، ہم نےسخت جنگ لڑی ہے، بہت زیادہ لہو دیا ہے، کبھی ذہن میں نہیں آیا کہ شدت پسندی یا عدم استحکام ہمارے کسی فائدے کا ہو سکتا ہے۔
کرزئی حکومت نے یہ بھی الزام لگایا کہ افغانوں کے شانہ بشانہ لڑنے والی امریکی قیادت والی افواج سے غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں، اور وہ یونیورسٹی کے طلبا تک کو گرفتار کر رہی ہے۔
ہیگل ایک ایسے وقت افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں جب وہ امریکی تحویل میں چلنے والی حراستی تنصیبات کا کنٹرول خود سنبھالنا چاہتا ہے، اور غیرملکی فوج کے انخلا میں تیزی لانے کے لیے کوشاں ہے۔
ہفتے کے روز ہونے والی ایک اور تقریب جس میں امریکی تحویل میں قائم کلیدی حراستی تنصیب کو افغانستان کے حوالے کیا جانا تھا، وہ بھی منسوخ کی گئی، ایسے میں جب دونوں حکومتوں کے مابین ایک معاہدہ آگے نہ بڑھ سکا۔
گذشتہ ماہ، ہیگل کے پیش رو لیون پنیٹا نے کہا تھا کہ نیٹو کے اتحادی ممالک اِس بات پر غور کر رہے ہیں کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں 8000سے 12000تک بین الاقوامی فوجیں تعینات رکھی جائیں۔
اِس وقت افغانستان میں نیٹو کی فوج کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے۔