محکمہٴ انصاف نے جمعے کے روز اعلان کیا ہے کہ نیو یارک میں ایک وفاقی گرینڈ جیوری نے نو ایرانیوں پر فرد جرم عائد کی ہے، جن پر سینکڑوں امریکیوں اور غیر ملکی تحقیقی یونیورسٹیوں، نجی اور سرکاری اداروں پر بڑے سائبر حملے کرنے کا الزام ہے۔
فرد جرم کی دستاویز کی جمعے کے روز مہر کھولی گئی۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں ایران کے ’سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی‘ کے لیے کام کرتے ہوئے، اُنھوں نے اپنی ہیکنگ کی مہم کا آغاز کیا۔
مشتبہ افراد ’مبنا انسٹی ٹیوٹ‘ کے لیے کام کرتے تھے، جس تنظیم کو دو ہیکروں نے قائم کیا تھا، جس کا مقصد ایرانی یونیورسٹیوں کو سائنسی تحقیق تک رسائی دلانا تھی۔
معاون اٹارنی جنرل، روڈ روزنٹائن نے بتایا ہے کہ یہ ہیکر 22 ملکوں کی 320 کپمیوٹر نظاموں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، جن میں 144 امریکی یونیورسٹیاں شامل ہیں، اور تحقیقی کام کو چوری کی جس سے تعلیمی اداروں کو تقریباً 3.4 ارڈ ڈالر کا نقصان پہنچا۔
اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، روزنٹائن نے کہا کہ ’’تدریسی ادارے غیر ملکی سائبر چوروں کا خاص ہدف بنتے ہیں۔ یونیورسٹیاں کھلی منڈی میں پنپتی ہیں، جہاں تحقیق اور ترقی کا کام ہوتا ہے، یہ تبھی ممکن ہوگا کہ اُن کی تحقیق کو چوروں سے محفوظ رکھا جا سکے‘‘۔
امریکی محکمہٴ محنت نے بتایا ہے کہ ہیکرز کی جانب سے ہدف بنائے گئے دیگر اداروں میں سے 47 امریکی اور غیر ملکی نجی کمپنیاں تھیں۔ اہل کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہٴ محنت، توانائی کی انضباطی کمیشنیں، ہوائی اور انڈیانا کی ریاستیں اور اقوام متحدہ نشانے پر تھے۔
روزنٹائن نے بتایا کہ چوری کی گئی معلومات یا تو ’سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی‘ نے استعمال کی یا پھر ایران کو فروخت کی گئی۔
مبینہ ہیکر روپوش ہیں۔
امریکی محکمہٴ خزانہ نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ اس سائبر مہم کے سلسلے میں وہ ’مبنا انسٹی ٹیوٹ‘ اور 10 ایرانی افراد پر پابندیاں لگا رہا ہے۔
دہشت گردی کی حمایت کرنے پر، محکمے نے پہلے ہی ’سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی‘ پر تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔