خیبر پختونخوا کے نیم قبائلی ضلعے ملاکنڈ کے قصبے سخاکوٹ میں سماجی کارکن اور بلاگر محمد زادہ آگرہ وال کو گھر کے سامنے گھات لگا کر قتل کیا گیا۔ ان کی موت کے بعد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ باردرز نے اپنے بیان میں واقعے کی مذمت کی ہے۔
محمد زادہ آگرہ وال کے قتل کے خلاف احتجاج میں مظاہرین نے جی ٹی روڈ بلاک کر دی تھی جس سے اس شاہراہ پر آمد و رفت بند ہو گئی۔ بعد ازاں سرکاری حکام سے مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کیا گیا۔
حکام نے مظاہرین کو آگاہ کیا کہ اس واقعے میں اب تک چھ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
سخاکوٹ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن محمد زادہ آگرہ وال کو پیر کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
کسی تنظیم یا فرد نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔ البتہ محمد زادہ آگرہ وال کے بھائی جلال اکبری نے ضلعی انتظامی افسران پر اس میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ احتجاجی مظاہرے سے خطاب میں انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو ایف آئی آر میں نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
محمد زادہ آگرہ وال ’سٹیزن جرنلسٹ پی کے‘ کے نام سے فیس بک پر ایک پیج کے ایڈیٹر تھے۔ فیس بک کے اس پیج پر مالاکنڈ کے سماجی مسائل کا احاطہ کیا جاتا تھا۔ سخاکوٹ بھی ضلع مالاکنڈ میں واقع ہے۔
انہوں نے فیس بک کے ذریعے حال ہی میں مقامی جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیوں اور انتظامیہ سے ان کی ملی بھگت کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی جس پر انہیں علاقے میں کافی شہرت بھی ملی تھی۔
گزشتہ ماہ علاقے میں ہونے والی کھلی کچہری میں بھی محمد زادہ آگرہ وال نے علاقے میں منشیات کے کاروبار اور سرکاری حکام کی کرپشن پر سخت انگیز تقریر کی تھی۔
اس تقریر میں انہوں نے منشیات کے مقامی اسمگلروں اور با اثر مقامی افراد کی بھی نشان دہی کی تھی۔ ان کی یہ تقریر سوشل میڈیا پر بھی زیرِ گردش ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ اور درگئی کے اسسٹنٹ کمشنر کو بر طرف کر دیا ہے۔
دوسری جانب ملاکنڈ کے ڈپٹی کمشنر انوار الحق نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سماجی کارکن محمد زادہ آگرہ وال کے قتل کیس میں پیش رفت ہوئی ہے اور اس واقعے میں چھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعہ کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے جو ان کے بقول نا مناسب عمل ہے۔
ضلعی حکام نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج سے دو ملزمان کا سراغ لگا لیا ہے اور ان کی شناخت ہو گئی ہے۔
حکام کے مطابق لیویز فورس کے اہلکار ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔
ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی ذیشان رانے زئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ محمد زادہ آگرہ کی عمر لگ بھگ 30 برس تھی۔ وہ کالج میں تعلیم کے دوران تحریکِ انصاف کے طلبہ ونگ میں شامل رہے بعد ازاں مقامی سطح پر نظر انداز کیے جانے پر علاقہ میں سماجی خدمت کا انجام دینے لگے تھے۔
محمد زادہ آگرہ وال کے والد خانزادہ آگرہ وال کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کا ایک ہی گناہ تھا کہ وہ معاشرے میں منشیات کے خلاف آواز اٹھاتے تھے اور علاقے کے نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنا چاہتے تھے۔
منشیات کی اسمگلنگ اور علاقے میں دستیابی کو بے نقاب کرنے پر بلاگر کے مبینہ قتل پر رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے ایک بیان میں واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ بیان کے مطابق محمد زادہ آگرہ وال نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو علاقے میں مقامی انتظامیہ کے منشیات کے اسمگلروں اور ان کی سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے بیان میں ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔
محمد زادہ آگرہ وال کو آٹھ نومبر کو خیبرپختونخوا کے علاقے سخاکوٹ میں ان کے گھر کے سامنے اس وقت گولی مار کر قتل کیا گیا جب وہ موٹر سائیکل پر گھر پہنچے تھے۔ دو افراد نے، جو موٹر سائیکل پر ان کا پیچھا کر رہے تھے، انہیں نشانہ بنایا۔