بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکام کا کہنا ہے کہ ریاست میں نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے جو تشویش کا باعث ہے۔
حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خطے میں چھ لاکھ لوگ منشیات سے متعلق مسائل سے متاثر ہیں جو اس کی کل ایک کروڑ 36 لاکھ 50 ہزار آبادی کا تقریباً 4.6 فی صد ہیں۔ منشیات کا استعمال کرنے والوں میں 90 فی صد 17 سے 33 سال کی عمر کے افراد ہیں۔
جموں و کشمیر کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر اشوک کمار مہتہ نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں خطے میں منشیات کے استعمال اور لت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
چیف سیکریٹری کو حال ہی میں متعلقہ افسران کے ایک اجلاس کے دوران آگاہ کیا گیا تھا کہ کشمیر اور گولڈن کریسنٹ کے مابین چوں کہ جغرافیائی قربت ہے۔ اس لیے افغانستان سے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے راستے جموں و کشمیر میں افیون اور دوسری منشیات کی غیر قانونی نقل و حمل کی جاتی ہے۔
ایک حالیہ سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان دنیا کی 80 فی صد افیون پیدا کرتا ہے اور اسے منشیات کی غیر قانونی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں افیون کی زیادہ کاشت کے باعث تمام بِمسٹیک ممالک میں، جن میں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، بھوٹان، میانمار اور تھائی لینڈ شامل ہیں، ہیروئن کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے ۔
بھارتی حکام الزام لگاتے ہیں کہ اسمگلرز متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن اور دیگر سرحدی راستوں سے افیون اور دیگر منشیات بھارت پہنچاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیاں سب سے زیادہ جموں و کشمیر میں دیکھی گئی ہیں۔
کشمیر کی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کہتے ہیں کہ سرحد پار سے گولہ باری کی آمد رک گئی ہے۔ دراندازی کی نسبتاََ کم کوشش کی جا رہی ہے البتہ بدقسمتی سے منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروہ لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد جموں و کشمیر کے مختلف حصوں میں ہتھیاروں اور نشہ آور ادویات گرانے کے لیے ڈرون کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔
بھارتی حکام الزام لگاتے ہیں کہ اکتوبر 2008 میں کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بارٹر سسٹم یعنی اشیا کے بدلے اشیا کے حصول کے نظام کو کسٹم سے پاک تجارت کو بھی منشیات کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ نے اپریل 2019 میں یہ الزام لگا تھا کہ پاکستان میں موجود چند عناصر تجارتی راستوں کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور اس کے بعد کراس ایل او سی تجارت کو تا حکمِ ثانی معطل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ نے کہا تھا کہ دو طرفہ تجارت سخت ریگولیٹری نظام کے قیام تک بند رہے گی اور دعویٰ کیا تھا کہ کراس ایل او سی تجارت کو معطل رکھنے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس طریقۂ کار کے ذریعے جموں و کشمیر کے لوگوں کے فائدے کے لیے کنٹرول لائن کے آر پار صرف جائز تجارت ہو-
پاکستان نے بھارت کے الزام کی تردید کی تھی اوردو طرفہ تجارت بند کرنے کے فیصلے کو یک طرفہ قرار دیا تھا۔
پاکستان نے بھارت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا تھا اور اُس وقت کہا تھا کہ اس سلسلے میں اسلام آباد سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
دو سال چھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود دو طرفہ تجارت بند ہے۔
تاجروں کی انجمن اسلام آباد کراس ایل او سی ٹریڈرز یونین کے صدر ہلال ترکی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سے دونوں جانب کے تاجروں کو غیر معمولی نقصان سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ البتہ انہیں اس بات سے انکار نہیں کہ اس سہولت کا اُن کے بقول چند عناصر نے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔
ہلال ترکی نے کہا کہ اگر کراس ایل او سی کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے وہ نظام کی ناکامی ہے۔ حقیقی تاجر کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ پھر وہ کیوں تکلیف اٹھا رہے ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی افیون اور چرس کی کاشت کی جاتی ہے۔ غیر سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ معلومات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ منشیات کی مقامی پیداوار کے کاروبار اور استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرینِ نفسیات اور مبصرین کشمیر میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی وجہ خطے میں کئی دہائیوں سے جاری تشدد اور بدامنی جب کہ اس کے نتیجے میں نوجوانوں میں بے روزگاری، محرومیوں اور مایوسی کو قرار دیتے ہیں۔
تجزیہ کار پروفیسر نور احمد بابا کہتے ہیں کہ نوجوان نسل کئی طرح کے مسائل اور الجھنوں سے دوچار ہے جن میں روزگار کا مسئلہ سب سے زیادہ بڑا ہے۔ وہ مایوسی کا شکار ہیں اور پھر اس عالم میں غلط کاموں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عبدالوحید خان کہتے ہیں کہ منشیات سے متاثرہ جو مریض ان کے پاس علاج کے لیے آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں اُن کی اکثریت کی عمریں 18 سے 35 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان میں سے چند نے منشیات کا شوقیہ استعمال شروع کیا تھا البتہ بعد میں انہیں اس کی لت پڑ گئی۔ ان کے مطابق اکثر مریض مختلف وجوہات کی وجہ سے مایوسی اور محرومیوں سے اس راہ پر چل پڑتے ہیں۔
ایک اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر مشتاق مرغوب کہتے ہیں کہ کشمیر کے لوگ گزشتہ تین دہائیوں سے ذہنی دباؤ، مایوسی، ناامیدی اور افسردگی کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ تاہم باہمی سماجی تقریبات، میل ملاپ اور آپس میں دکھ اور خوشیاں بانٹنا اس کے اثرات کو بڑی حد تک زائل کرتے تھے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے یہ سارا سلسلہ تقریباََ مکمل طور پر رُک گیا ہے جس سے صورتِ حال مزید بگڑ گئی ہے۔
جموں و کشمیر کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر اشوک کمار مہتہ نے کہا کہ اس ساری صورتِ حال سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت اینٹی نارکوٹکس ٹاسک فورس، ایکسائز اور زراعت کے محکموں کے ساتھ مل کر کشمیر میں افیون اور چرس کی کاشت کے خلاف مہم چلائے گی۔