دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں مذہبی امتیاز 'خوف ناک' سطح پر پہنچ گیا ہے اور ایسے میں کچھ ماہرین نے خبردار کیا ہے بھارت کو اپنا راستہ بدلنا ہوگا بصورتِ دیگر اسے امریکہ کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کے سربراہ ربی ابراہم کوپر نے منگل کو قانون سازوں کو بتایا کہ بھارت نے ماضی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن مذہبی امتیاز سے متعلق اس ملک کا تنزلی کی طرف جانے کا عمل کافی خوف ناک ہے۔
انہوں نے کہا، "مذہبی تفریق کو قومی فخر کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔"
یو ایس سی آئی آر ایف نے سفارش کی ہے کہ بھارت کو امریکی حکومت کی طرف سے'خاص تشویش والے ملکوں ( سی سی پی) کی فہرست میں شامل کیا جائے، جہاں مذہبی آزادی کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کی وجہ سے افغانستان، شام، نائیجیریا اور ویتنام شامل ہیں۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے بھارت کی ان سرکاری ایجنسیوں اور عہدیداروں پر اقتصادی اور سفرکی پابندیوں کا بھی مطالبہ کیا ہے، جو مبینہ طور پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
یو ایس سی آئی آر ایف کی جانب سے یہ تنقید ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکہ کا اسٹیٹ وزٹ کیا تھا اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا تھا۔
سال 2005 میں امریکی محکمۂ خارجہ نے 2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد میں مبینہ کردار کی وجہ سے نریندر مودی کا سیاحتی وکاروباری ویزا منسوخ کر دیاتھا۔
ربی ابراہم کوپر نے وزیرِ اعظم مودی کے دورۂ امریکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ہم امید کر رہے ہیں کہ اب جب کہ یہ دورہ کامیابی سے ختم ہو چکا ہے ، اس کا سنجیدہ جائزہ لیا جائے گا۔"
انسانی حقوق کے گروپوں نے مودی حکومت پر مسلمان، عیسائی اور سکھ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے امتیازی مذہبی قوم پرستی کو فروغ دینے کا الزام لگایا ہے۔
بھارت میں مذہبی تشدد کے بار بار ہونے والے واقعات کے درمیان، ہندوستان کی 28 ریاستوں میں سے 12 نے مذہب کی تبدیلی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون پاس کیا ہے۔
واشنگٹن کے سرکاری دورے کے دوران وزیرِ اعظم مودی سے 22 جون کو وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران ان کی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
وزیرِ اعظم مودی کا کہنا تھا "میں واقعی حیران ہوں کہ لوگ ایسا کہتے ہیں، ہندوستان میں ایک آئینی جمہوری نظام ہے۔جس میں تعصب کے لیے قطعی کوئی جگہ نہیں ہے۔"
اسی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر سبرینا صدیقی کو وزیرِ اعظم مودی سے مذہبی امتیاز کے معاملے پر سوال کرنےکی وجہ سے آن لائن ہراساں کیا گیا ،جس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔
امریکی محکمۂ خارجہ میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے 'امبیسیڈر ایٹ لارج ' رشاد حسین نے منگل کو کانگریس کی سماعت کے دوران بتایا کہ "ہم اس سال مذہبی آزادی سے متعلق خاص تشویش والے ملکوں کی 'سی پی سی' کی نامزدگی کے لیے اپنا عمل شروع کر رہے ہیں۔
انہوں نے تخصیص سےیہ نہیں بتایا کہ آیا بھارت کو اس برس سی پی سی میں نامزد کیا جائے گا۔
گزشتہ برس یو ایس سی آئی آر ایف کی سفارش کے باوجود امریکی حکومت نےبھارت کو خاص تشویش والے ملک کے طور پر نامزدنہیں کیا تھا۔
عالمی خدشات
امریکہ اور بھارت، دونوں نے چین کو ایک اسٹرٹیجک چیلنج سمجھ کر حالیہ عرصے کے دوران دو طرفہ اقتصادی، فوجی اور سیاسی تعلقات کو وسعت دی ہے۔ 2022 میں 120ارب ڈالر کی تجارت کے ساتھ امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا ہے۔
اسی اثنا میں امریکی قانون سازوں نے چین سے لے کر نکاراگوا تک دنیا بھر میں مذہبی آزادی کی بگڑتی ہوئی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
رکنِ کانگریس کرسٹوفر اسمتھ نے کہا"آج میں مذہبی آزادی کے مزید بگاڑ کے بارے میں پہلے سے زیادہ فکر مند ہوں،"وہ اس بارے میں بات کر رہے تھے کہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی، آزادی سے اپنےعقیدے پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔
کچھ قانون سازوں نے چین پر مذہبی اقلیتوں بالخصوص ایغور مسلمانوں کے خلاف "نسل کشی" کا الزام لگایا ہے - ان الزامات کی چینی حکومت نے بار بار تردید کی ہے۔
قانون سازوں نے محکمۂ خارجہ سے مجرم حکومتوں کو جواب دہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیاہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایک جامع طرز عمل اپنانا چاہیے اور دنیا کے مختلف حصوں میں کمزور مذہبی کمیونٹیز کی حالت زار کو مزید خراب کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ہارورڈ ڈیوینیٹی اسکول میں مذہب اور عوامی زندگی کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر سوسن ہیورڈ نے کہا، "امریکہ کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ کمزور کمیونٹیز کی مدد کرے، (جیسے)چین میں اویغور، پاکستان میں ملحد اور ایران میں بہائی افراد کی۔"
سوسن ہیورڈ نے کہا، "مذہبی آزادی کے لیے امریکہ کی وکالت کو تنازعات کے معاملے میں حساس ہونا چاہیے، تاکہ پہلے سے کمزور کمیونٹیز کو مزید کمزور نہ کیا جا سکے اور نہ ہی تنازعات کی مذہبی جہت کو مزید بدتر کیا جائے۔"