اردن کی سر پرستی میں عمان میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین سولہ ماہ کے وقفے کے بعد اچانک جو مذاکرات ہوئے ہیں اُن پر ایک ادارئے میں ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ یہ اردن کے شاہ حسین کی انتھک کاوشوں کا نتیجہ تھے اور کسی حد تک امریکہ، یورپی یونین، روس اور اقوام متحدہ کی کوششوں کا بھی، جو کئی ماہ سے دونوں فریقوں پر اِس کے لئے دباؤ ڈالتے آئے ہیں ۔
اخبار کہتا ہے کہ امید افزا بات یہ ہے کہ مذاکرات میں یہ طے پایا ہے کہ اعلیٰ سطح کے رابطے جاری رہیں گے ۔ لیکن ، بدقسمتی سے دونوں فلسطینی صدر محمود عبّاس اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتین یاہو کی طرف سے ایک امن سمجھوتےکی طرف پیش قدمی میں روکاوٹیں ہیں۔
فلسطینی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ 26 جنور ی کا انتظار کر رہی ہے جو امریکہ، یورپی یونین، روس اور اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ آخری تار یخ ہے، جب دونوں فریقوں کو مستقبل کی فلسطینی مملکت کی سرحدوں اور اس کی سیکیورٹی کے بارے میں تجاویز پیش کرنی ہونگی، جب کہ اسرا ئیل اس انتظار میں ہے کہ فلسطینی کب غیر مشروط مذاکرا ت کے لئے ان چاروں فریقوں کے مطالبے کو پورا کریں گے۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ کا خیال ہے کہ فلسطینی انتظامیہ غالباً اسرئیل کے خلاف، بقول اخبار کے، اپنا لا حاصل بین الاقوامی سفارتی حملہ دوبارہ شروع کرےگی جِس میں اسے اب تک یونیسکو کی رکنیت حاصل کر نے میں کامیابی ہوئی ہے۔ اب وہ سلامتی کونسل سے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرے گی اور پھر شاید سلامتی کونسل سے مطالبہ کرے گی کہ یہودی بستیوں کی تعمیر پر اسرائیل کی مذمّت کی جائے جو منظور ہوجائےگی او ر اوباماانتظامیہ کے لئے ندامت کا باعث ہوگی ۔
اخبار کے خیال میں زیادہ اہم بات یہ ہوگی جب فتح کی سیکیو لر تحریک ، حماس تحریک کے ساتھ وعدے کے مطابق مصالحت کے لئے قدم اُٹھائے گی ۔ چونکہ، حماس کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر اصرار ہے۔ اِس لئے مذاکرات کا امکان ختٕم ہو جائے گا اور امریکہ کو فلسطینی انتظامیہ کی فنڈنگ بندکرنے کا قدم اٹھانا پڑے گا ۔
اخبار کہتا ہے کہ بد قسمتی سے مسٹر نیتن یاہو نے بھی فلسطینیو ں کےساتھ مذاکرات ممکن بنانے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔اسرائیل نےیروشلم کے گرد بستیوں کی تعمیرجاری ر کھی ہے اور نیتن یاہو نے امن کی خاطر کسی قسم کا خطرہ مول لینے سے گریز کیاہے۔
’شکاگو سن ٹائمز‘ اخبار کہتا ہے کہ ایلی نوائی کی ریاست بچوں کے عدل کے معاملے میں بہت آگے رہی ہےاور اس کو سنہ 1899 سے ملک میں بچوں کی پہلی عدالت قائم کرنے کا شرف حاصل ہے۔ لیکن، اخبار کے بقول، اب اس ریاست کو یہ امتیاز حاصل نہیں رہا ۔ اور، بچوں کے لئے ریاستی جسٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاست میں محکمہء انصاف جتنے کم سن لڑکے لڑکیوں کو جیل میں ڈالتی ہے اُن میں سے آدھے سے زیادہ دوبارہ واپس جیل پہنچ جاتے ہیں۔اخبار کہتا ہے ایسے بچوں کو جنہوں نے کوئی تشدد نہ کیا ہو اگر جیل میں ڈال دیا جائے تو اس سے ان کی اصلاح نہیں ہوتی ۔ان پر خرچ بہت آتا ہے اور معاشرہ زیادہ محفوظ نہیں ہوتا۔
ایک جائزے کے مطابق ایک کم سن قیدی پر سال میں 88 ہزار ڈالر کا خرچ اُٹھتا ہے۔چنانچہ، اخبار کے خیال میں دانشمندی کا تقاضا ہے کہ انہیں قید خانوں میں ڈالنے کے بجائے معاشرے کے بھلے کے کسی موٴثّر پروگرام میں ڈال دیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس سلسلے میں ایلی نوائے میں حوصلہ افزا ء پیش رفت ہونا شروع ہوئی ہے اور اب ججوں کے لئے یہ لازمی ہوگا کہ جرم کرنے والے بچوں کو جیل بھیجنے کے بجائے کسی متبادل پروگرام میں ڈالنے کی صورت نکالی جائے۔
مزید رپورٹیں سامنے آئی ہیں جِن کے مطابق مجرموں کو قید میں ڈالنے کے بجائے ان سے نگرانی کے تحت عوام کے بھلائی کی ایسی سروسز میں کام لیا جاتا ہے جو اُن پر آنے والی لاگت کی خود کفیل ہوتی ہیں۔سنہ 2007 کے بعد سے 8 ریاستوں میں بچوں کے 50 قید خانے بند کر دئے گئے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: