رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے:11ستمبر حملوں کے منصوبہ سازوںٕ پر فردِ جرم


’اخبار کرسچن سائنس مانِٹر‘ کہتا ہے کہ فوجی وکلائے استغاثہ کےپاس ایک مہینہ ہے جس دوران وہ ان ملزموں کو عدالت کے کٹہرے میں لاسکتے ہیں جنہیں امکانی طور پر موت کی سزاٴ کا سامنا ہے

امریکی محکمہٴ دفاع نے فیصلہ کیا ہے کہ نائن الیون کے سب سے بڑے ملزم خالد شیخ محمد اوران کے چار ساتھیوں پراُن کے اُس کردار پر دوبارہ مقدّمہ چلایا جائےجو انہوں نے امریکہ پر تاریخ کے خوف ناک ترین دہشت گردانہ حملے میں ادا کیا تھا۔ 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں ، ان پانچ افراد کی شرکت کے بارے میں فرد جُرم باقاعدہ طور پرکیوبا میں گواں ٹانمو کے فوجی اڈّےایک ملٹری کمیشن کے سامنے پیش کی گئی۔

’اخبار کرسچن سائنس مانِٹر‘ کہتا ہے کہ فوجی وکلائے استغاثہ کے پاس ایک مہینہ ہے جس دوران وہ ان ملزموں کو عدالت کے کٹہرے میں لاسکتے ہیں جنہیں امکانی طور پر موت کی سزاٴ کا سامنا ہے۔

اخبار کہتاہے کہ یہ کاروائی متوقّع تھی لیکن اوباما انتظامیہ کے لئے یہ کاروائی اُس کے اُس موقف کے بالکل برعکس ہے جو اس نے 2009ء میں اقتدار سنبھالتے وقت اختیار کیا تھا اور ان ملزموں کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ردّ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اس کے بدلے اُن پر یہ مقدّمہ نیو یارک کی ایک سویلین عدالت میں چلایا جائے گا۔

یہ کاروائی اس وجہ سے منسوخ کرنی پڑی کیونکہ کانگریس نےگواں ٹانمو میں نظربند قیدیوں کو امریکہ کی سرزمین پر منتقل کرنے یا یہاں اُن پر مقدّمہ چلانے کی مخالفت کی تھی ۔ بلکہ نیو یارک کی ایک ضلعی عدالت نے ایک سال قبل وفاق کی طرف سے لگائی گئی فرد جرم کو ردّ کر دیا تھا اور اس طرح سویلین عدالت میں مقدّمہ چلانے کے امکا ن کو ختم کر دیا تھا۔

اِن پانچ افراد پر نائن الیون کے اُن دہشت گردانہ حملوں کو ممکن بنانے میں کردار ادا کرنے کا الزام ہےجن میں دو طیارے نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو ٹاوروں سے ٹکرائے گئے تھے اور اُنہیں زمین بوس کر دیا گیا تھا۔ایک طیارے کو محکمہء دفاع کی عمارت پینٹگان پر گرایا گیا تھااور ایک چوتھا طیارہ جس کا ہدف واشنگٹن میں کانگریس کی عمارت اور وہا ئٹ ہاؤس بتایا گیا ہے ۔ راستے میں پینسلواینیہ کے ایک کھیت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا ، کیونکہ اُس کے مسافروں نے ہائی جیکروں کی مزاحمت کی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ خالد شیخ محمد یہ اقرار چُکے ہیں کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی اور ان کے لئے درکار افراد جمع کرنے کی ذمہ داری اُنہیں پر آتی ہے جب کہ باقی چار ملزوں نے بھی اس میں کم تر کردار ضرور ادا کیا ۔ ان کے نام ہیں مبارک بن عطّاش ، رمزی بن الشبھ،علی عبدالعزیز علی اور مصطفیٰ احمد آدم الہو سوی ۔

’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اس تاریخی مقدّمے کا مقصد نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے شکار لوگوں اوراُن کے لواحقین کو حتیٰ المقدور انصاف دلانا ہے اور حقوق انسانی کے علمبردار کی اس پر قریب سے نظر ہوگی جو کمیشن کی کاروائی کو دوسرے درجے کے انصاف کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اخبار کہتا ہےکہ اوباما انتظامیہ نے کانگریس کے ساتھ مل کر سابقہ ملٹری کمیشنوں کےمقابلے میں مقدمے کی کاروائی کے طریق کار میں زیادہ حفاظتی تدابیر کا اضافہ کردیا تھا۔لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ جس مقدّمے میں موت کی سزا کا امکان ہواس کے لئے اس طریق کار میں وہ ضمانتیں موجود نہیں۔

’ڈیٹرایئٹ نُیوز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ چین کے ایک اقتصادی طاقت کی حیثیت سے اُبھرنے کے باوجُود امریکہ کی مصنوعات کی استعداد بڑھ رہی ہے۔ پیداواریت میں بھاری پیش رفت اوراعلیٰ فنیا ت میں اس کے اونچے مقام کی وجہ سے امریکہ کی مینیو فیکچرنگ نے حیرت انگیز صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔پچھلے سال ملک کی مجموعی معیشت کی شرح نمو صرف ایک اعشاریہ سات فیصد تھی۔ لیکن امریکی صنعتی پیداوا کے مینیو فیکچرنگ شُعبے یہ اضافہ تقر یباً تین گُنا تھا۔

البتہ، اخبار کے خیال میں ایک قباحت یہ ہے کہ امریکہ خطر ناک حد تک ایسے خام مال کے لئےدرآمدات کا دست نگر ہو گیا ہے جو معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ ان میں نادر خاکی دھاتیں شامل ہیں۔ جن کی پیداوار کا بیشتر حصّہ چین سے آتا ہے۔ اخبار کہتا ہے ۔ کہ ان نادر دھاتوں کا تیرہ فی صد امریکہ میں پایا جاتا ہے۔اورامریکی صنعت میں ان کی جتنی کھپت ہے۔ اس سے دوگنی مقدار میں ملک کے اندر ہی اس کی پیدوار بڑھائی جا سکتی ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG