امریکہ کےسب سے کثیرالاشاعت اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کے ایک تجزیے کے مطابق امریکہ میں متوسط طبقے کی آمدنی سکڑتی جارہی ہے۔
PENریسرچ سینٹر کے نائب صدر پال ٹیلر کے حوالے سے اخبار نے بتایا ہے کہ ملک میں آمدنی کی ناہمواری متوسط طبقے میں نمایاں ہے اور پہلے کے مقابلے میں اِس طبقے کا حصہ کم ہوگیا ہے۔ چوٹی کا پانچ فی صد طبقہ سالانہ ایک لاکھ 81ہزار ڈالر کماتا ہے۔
سنہ 2010میں امریکی گھرانوں کا چوٹی کے مزید پانچویں حصے کو قوم کی مجموعی آمدنی کا 49اعشاریہ 9فی صد ملا تھا جو 2006ء کے مقابلے میں تین اعشاریہ چار فی صد کم تھا۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ نےایک اور ماہرِ معاشیات Heidi Shierholz ہیڈی شیریوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ 1970ء کی دہائی میں ملک کی آمدنی کا 53فی صد حصہ متوسط طبقے کو جاتا تھا، لیکن 2000ء کی دہائی میں متوسط طبقے کے گھرانوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہونا بند ہوگیا اور حالیہ کساد بازاری نے حالات کو مزید خراب کردیا، کیونکہ آجروں نے کام کرنے والوں کے کام کے اوقات کم کردیے،کارکنوں کو لمبی چھٹی پر بھیج دیا، اجرتیں بڑھانا بند کردیا اور کئی اسامیاں ختم ہی کردیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ، گھرانوں کے اثاثوں مثلاً مکانوں کی مالیت بھی گِر گئی۔
اخبار کہتا ہےکہ مجموعی طور پر اِن گھرانوں نے بھاری نقصان اُٹھایا اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ حالات میں بہتری آنے کا کوئی امکانات نہیں ہیں۔
اخبار’ لاس انجلیس ٹائمز‘ نے صدارتی نامزدگی کے تین ریپبلکن امیدواروں کی اس تجویزپرتبصرہ کیا ہے کہ ملک کے ٹیکسوں کے نظام کو بدل کراُس کی جگہ فلیٹ ٹیکس کا طریقہ رائج کیا جائے جس کےتحت کسی شخص کی آمدنی پر ایک مقررٹیکس لگایا جائےگا اور کسی قسم کا استثنیٰ نہیں دیا جائے گا۔
اِس طریقے کے تحت، امریکیوں کو پیسہ بچانے اور اس کو سرمایہ کاری میں لگانے کی ترغیب ہوگی اور دھوکہ دینے کا لالچ کم ہوگا۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ فلیٹ ٹیکس کے ذریعے جو فوائد حاصل ہوں گے۔ اُنھیں حاصل کرنے کے دوسرے طریقے بھی ہیں جن کی مدد سے متوسط طبقے سے ٹیکس کا زیادہ بوجھ اُٹھانے کے لیے نہیں کیا جائے گا جو اس وقت اوپری طبقہ برداشت کر رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ فلیٹ ٹیکس کے حامی ٹیکسوں کے نظام میں سہولت پیدا کرنے میں حق بجانب ہیں۔ لیکن اُن کی توجہ غلط مسئلے پر ہے۔
اخبار Arizona Daily Starایک اداریے میں کہتا ہے کہ امریکیوں کو جو آزادیاں نصیب ہیں اُن کے لیے اُنھیں خدا کا شکر بجا لانا چاہیئے۔
اُنھیں حکومت سے اختلاف کرنے کا پورا حق ہے۔ وہ اُسے جو نام دینا چاہیں اُنھیں اس سے کوئی نہیں روک سکتا چاہے ایسا کرنے میں وہ کتنی بھی غلطی پر ہوں۔ اُنھیں کسی بھی سیاسی عہدے دار یا ممتاز شخصیت پر کڑی تنقید کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ وہ عیاشیاں ہیں جو امریکیوں کے لیے ایک مسلمہ حقیقت کا درجہ رکھتی ہیں۔ بیشتر لوگ خوش نصیب ہیں کہ اُنھیں مطلق العنانیت، غلامی اور جوروجبر کی زیادتیوں سے پالا نہیں پڑا ہے جِس کے لیے بھی اُنھیں شکرگزار ہونا چاہیئے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس میں شبہ نہیں کہ امریکی حکومت کو مطلق العنان قرار دینا سراسر غلط ہے، لیکن امریکیوں کو یہ آئینی ضمانت حاصل ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے کا کھُل کر اظہار کریں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکیوں کو آزاد پریس کی روایت پر بھی فخر ہونا چاہیئے اور اُنھیں اپنی بنیادی آزادیوں کا بھرپور استعمال کرنا چاہیئے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُنھیں اِس استحقاق کی قدر کرنی چاہیئے جو اُن کے لیے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لیکن جو باقیماندہ دنیا میں اِس قدر کم یاب ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: