افغان طالبان کی جانب سے آئے روز فتوحات کے نت نئے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ بار بار افغان رہنماؤں کو باور کرا رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کے دفاع کے خود ذمے دار ہیں اور طالبان کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکامی کی ذمے داری افغان رہنماؤں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بدھ کو ایک بار پھر واضح انداز میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے مستقبل کی ذمہ داری ان کے (افغان رہنماؤں) کے کاندھوں پر ہے۔
ترجمان نے کہا کہ افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی انہیں ضرورت ہے۔
جین ساکی نے کہا کہ افغان قیادت کو اس بات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان کے اندر سیاسی عزم موجود ہے کہ وہ جواباً لڑائی کریں اور آیا ان کے اندر یہ اہلیت ہے کہ لڑائی کے لیے رہنماؤں کے طور پر متحد ہو سکیں۔
دوسری جانب امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی سے بھی جب افغان صدر اشرف غنی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا جواب بھی بہت واضح تھا۔
انہوں نے کہا کہ "ہم کسی مخصوص طریقے کی وضاحت نہیں کر رہے کہ انہیں کس طرح اپنا دفاع کرنا ہے۔ یہ ان کا ملک ہے۔ وہ کمانڈر ان چیف ہیں۔ یہ ان کی سیاسی قیادت ہے، ان کا سیاسی عزم ہے جو بڑا فرق ڈال سکتا ہے۔"
وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان کے بدھ کو سامنے آنے والے ریمارکس صدر جو بائیڈن کے منگل کو دیے گئے اس بیان کا عکاس دکھائی دیتے ہیں جس میں صدر نے 20 سال کی جنگ کو اختتام تک پہنچانے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا تھا۔
صدر بائیڈن نے کہا تھا "ہم نے گزشتہ بیس برسوں میں ایک ٹریلین (دس کھرب) ڈالر افغانستان میں خرچ کیے ہیں۔ ہم نے تین لاکھ سے زیادہ افغان فورسز کو تربیت دی اور جدید ہتھیاروں سے لیس کیا۔ افغان فورسز کی تعداد بھی طالبان سے کہیں زیادہ ہے۔"
وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق افغانستان سے متعلق واشنگٹن ڈی سی میں بظاہر مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی عہدیدار روز ان سوالات پر دفاعی پوزیشن لیتے نظر آتے ہیں جن میں پوچھا جاتا ہے کہ امریکی تربیت کے باوجود افغان سیکیورٹی فورسز کو ایک کے بعد ایک ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کے عہدیدار بارہا کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی تربیت یافتہ افغان سیکیورٹی فورسز کے اندر اہلیت ہے کہ وہ طالبان کے حملوں کا سخت جواب دیں۔ جب کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں نو صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔
جان کربی نے بدھ کو ایسے ہی سوالات کے جواب میں کہا کہ وہ ایسے مفروضوں کو چیلنج کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہم بیس برسوں میں اپنا کام مکمل نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیانیہ درست نہیں ہے کہ افغان فورسز آسانی سے پیچھے ہٹ رہی ہیں اور میدان جنگ چھوڑ کر فرار ہو رہی ہیں۔ ان کے بقول ایسے کئی علاقے ہیں جہاں افغان فورسز نے جم کر مقابلہ کیا ہے۔
جان کربی نے کہا کہ اب جنگی میدان میں موجود قیادت اور کابل میں موجود قیادت پر انحصار ہے۔
امریکہ کی انٹیلی جنس کی نئی رپورٹ میں، جو سب سے پہلے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئی، تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ کابل 30 دن کے اندر اندر طالبان کے ہاتھ میں جا سکتا ہے۔
امریکہ کے عہدیداروں نے اس رپورٹ کے حوالے سے کھلے عام تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ اور زور دے کر کہا ہے کہ کوئی بھی مخصوص نتیجہ نا ممکنات میں سے نہیں ہے۔
تاہم امریکہ کے سینئر عہدیداروں نے بدھ کے روز گفتگو میں افغان فورسز کے لیے مزید مدد کی پیشکش کے امکان کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا۔ وائٹ ہاؤس نے اس سوال پر یہاں تک کہا کہ 'یہ ایک اچھا سوال ہے۔'
پینٹاگان کے ترجمان نے بھی وائس آف امریکہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت جو اختیار ہمارے پاس ہے وہ افغان فورسز کی فضا سے مدد کا ہے جو اس ماہ کے آخر تک جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں کوئی پالیسی نہیں ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد کیا ہو گا اور میں بھی اس بارے میں قیاس آرائی نہیں کروں گا۔