علی رانا
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ارکان نے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے حکومت کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کو ملکی ایئرپورٹس پر ہی ویزا جاری کرنے کا پروگرام امریکی دباؤ پر شروع کیا گیا ہے اور اس سے بلیک واٹر دوبارہ پاکستان میں آ سکتی ہے ۔وزیر داخلہ احسن اقبال نے ان خدشات کو مسترد کردیا ۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران تحریک انصاف کی راہنما شیریں مزار ی نے وزارت داخلہ کی طرف سے سیاحوں کے لیے’’ ویزا آن ارائیول‘‘(پاکستان آمد پر ویزا) کے پروگرام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ امریکی دباؤ پر ویزا آن ارائیول پھر شروع کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام سے قومی سلامتی کے لیے شديد خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ اسی سہولت کی وجہ سے ماضی میں بلیک واٹر کا ایشو بنا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب این جی اوز اس آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پورے کریں ۔ اس پروگرام کے تحت جن ممالک کو یہ سہولت دی گئی وہ ہمیں ویزا بھی مشکل سے دیتے ہیں۔
شیریں مزاری کے خدشات پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے جواب دیا کہ پاکستان کے مفاد کے لیے ہم اتنے ہی چوکنا ہیں جتنا کہ کوئی اور۔ ویزا کی کوئی نئی پالیسی متعارف نہیں کرائی گئی، بلکہ پہلے سے موجود پالیسی کے تحت یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس پر عمل درآمد کے لیے گائیڈ لائن موجود ہیں کہ کس طرح کے لوگ آئیں گے۔ جب کہ سیکیورٹی چیکس بھی موجود ہیں اور اس پالیسی کا مقصد صرف سیاحوں کو سہولت دینا ہے۔ میں اس خدشے کو مسترد کرتا ہوں کہ اس کی آڑ میں بلیک واٹر یا سیکیورٹی کنٹریکٹرز آ جائیں گے۔ ہم بین الاقوامی این جی اوز کا خیر مقدم کریں گے، لیکن ان کی آڑ میں پاکستان مخالف عناصر کو نہیں آنے دیں گے۔
وزیر داخلہ کے جواب پر قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 500 ڈالرز پر ویزا مل جاتا تھا جب کہ وہ 2 لاکھ میں ویزا دیتے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ آئے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ تھے ۔ ۔ وزیر داخلہ کی وضاحت میں ابہام پر بات کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ ہم ملک میں آئی این جی اوز کے قطعی مخالف نہیں ہیں۔ امریکہ سے کہا تھا کہ این جی اوز میں امریکی صدر کی دلچسپی کیوں ہے۔ جان کیری نے کہا کہ ہم وزارت داخلہ کو کئی ملین ڈالرز دینا چاہتے ہیں مگر وہ دلچسپی نہیں لیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس آئی این جی اوز کی امداد کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ این جی اوز کو اجازت اسلام آباد دی جاتی ہے لیکن وہ کام بلوچستان میں کرتی ہیں۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ’’ ویزا آن ارائیول‘‘پر پابندی میں نے لگائی۔ میں نے واضح پالیسی بنائی کہ ویزا آن ارائیول دو طرفہ ہو۔ کوئی ہمیں ویزا آن ارائیول دیتا ہے تو انہیں ہم بھی دیں گے۔ اگر ہمارے وزیر کو ویزا کے لیے سفارت خانے جانا پڑتا ہے تو ان کے وزیر کو بھی جانا ہو گا۔ جتنے پیسوں میں ہم ویزا دیتے ہیں وہ ملک بھی اتنے میں دے۔ ان چیزوں کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔
گزشتہ ہفتے وزارت داخلہ نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے’’ ویزا آن ارائیول‘‘ اسکیم کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت دنیا کے 24مختلف ملکوں کے شہری گروپ کی شکل میں پاکستان کے کسی بھی ایئر پورٹ پر پہنچ کر 30 دن تک کا ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔ جن ممالک کو یہ سہولت دی گئی ان میں امریکہ، آسٹریا، بیلجئم، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ، تھائی لینڈ، سپین اور ناروے بھی شامل ہیں۔ ان ممالک کے شہری پاکستان میں رجسٹرڈ ٹورآپریٹرز کے ذریعے گروپ کی شکل میں تیس دن تک کا سیاحتی ویزہ حاصل کر سکتے ہیں۔