رسائی کے لنکس

پاکستان میں گدھ کی نسل معدوم ہو رہی ہے


پارسی اپنی صدیوں پرانی روایت پر عمل کرتے ہوئے مُردوں کی باقیات کو ختم یا تلف کرنے کے لئے گدھ کا استعمال کرتے ہیں۔ پہلے مُردوں کو کسی پہاڑی یا بلند مقام پر چھوڑ دیا جاتا تھا جہاں گدھ ان باقیات کو کھا جایا کرتے تھے۔ لیکن ۔۔۔۔

گدھ ایک ایسا پرندہ ہے جس کے بارے میں پاکستان کے دو مذاہب کے ماننے والے الگ الگ سوچ رکھتے ہیں۔

یہ سوچ غلط ہے، اچھی ہے یا بری۔ اس بحث میں پڑے بغیر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں آباد پارسی برادری کو جہاں اپنی آبادی میں سال بہ سال کمی کا مسئلہ درپیش ہے وہیں آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے گدھوں کا نہ ملنا بھی ان کے لئے سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

پارسی اپنی صدیوں پرانی روایت پر عمل کرتے ہوئے مُردوں کی باقیات کو ختم یا تلف کرنے کے لئے گدھ کا استعمال کرتے ہیں۔ پہلے مُردوں کو کسی پہاڑی یا بلند مقام پر چھوڑ دیا جاتا تھا، جہاں گدھ ان باقیات کو کھا جایا کرتے تھے۔ لیکن، بعد میں اس کام کے لئے خصوصی مینار تعمیر کئے جانے لگے جنہیں’ٹاور آف سائلنس‘ کا نام دیا گیا۔

ایک روایت کے مطابق ان ’ٹاورز آف سائلنس‘ میں باقاعدہ گدھوں کی پرورش کی جاتی ہے کیوں کہ ایک زمانے میں پاکستان میں آسمان پر اڑتے کوؤں، چیل اور دیگر پرندوں میں سفید پشت والے گدھ بھی دکھائی دیتے تھے۔ لیکن، اب یہ منظر بدل چکا ہے۔ اب پاکستان میں گدھ کی نسل معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ولچر رسٹوریشن پروجیکٹ کی کوآرڈینیٹر وردا جاوید کے مطابق، پاکستان میں گدھ اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ لیکن، مختلف وجوہات اور ’ڈائے کلوفینک‘ نامی دوا جو گردے فیل ہونے کا سبب بنتی ہے گدھ مرنے لگے۔

’ڈائے کلوفینک‘ ایسی دوا ہے جو مویشی پالنے والے مویشیوں کو درد میں کمی کے لئے دیتے ہیں۔ گدھ مردہ گائیوں یا بکریوں کا گوشت کھاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ دوا ان کے جسم میں داخل ہو کر نقصان پہنچاتی ہے۔

’ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ، پاکستان‘ گدھوں کو معدومیت سے بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ لیکن، اب تک اسے پوری طرح کامیابی نہیں مل سکی ہے، جس کی ایک بنیادی وجہ ایک عوامی سوچ بھی ہے۔

گدھ بنیادی طور پر مردہ خور ہوتے ہیں اور طویل عرصے تک گدھوں کا تعلق موت سے جوڑا جاتا رہا ہے، یا یوں کہئے کہ گدھ موت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

گدھ آج بھی نحوست، بدقسمتی اور موت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اسی لئے پاکستان میں بھی گدھوں کی نسل کو خاتمے سے بچانے کے اقدامات کے لئے عوامی حمایت اور ہمدردی حاصل کرنا مشکل ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی فاطمہ عارف کے مطابق، ’’زیادہ تر لوگ گدھ کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ لیکن، کوششیں جاری ہیں کہ صورتحال تبدیل ہو۔’‘

اُنھوں نے بتایا کہ ’’ہم رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ گدھ کے بارے میں کہی جانے والی بہت سی باتیں حقیقت نہیں، بلکہ کہانیاں ہیں۔ گدھ شرمیلا پرندہ ہوتا ہے جو اپنے بچوں کا بہت خیال رکھتا ہے۔

لاہور سے تقریباً 100 کلو میٹر دور چھانگا مانگا میں قائم ایک وسیع انکلوژر میں اکثر سفید پشت اور گردن والے گدھ صبر سے بیٹھے کھانے کے منتظر نظر آتے ہیں۔ ان کی خوراک گدھے یا پھر بکری کا گوشت ہوتا ہے۔

یہ گدھ زمین سے دس میٹر اونچائی پر درخت کے تنے پر بیٹھتے ہیں۔ ان گدھوں کے پروں کا پھیلاؤ دو میٹر، جبکہ وزن سات اعشاریہ پانچ کلوگرام تک ہوتا ہے۔

انگریزی رونامے، ’ایکسپریس ٹری بیون‘ کی رپورٹ کے مطابق، خصوصی طور پر بنائے گئے اس انکلورژ میں گدھ محفوظ ہیں اور باہر کی صورتحال بہتر ہونے پر ہی ان کو اس انکلوژر سے باہر نکالا جائے گا، تاکہ ان کی زندگی محفوظ رہے۔

XS
SM
MD
LG