پاکستان کو رواں مالی سال لگ بھگ 35 ارب ڈالرز کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ وہیں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ کا عمل بھی جاری ہے اور شرح سود میں اضافے کو ماہرین کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے انتہائی مضر قرار دے رہے ہیں۔
مرکزی بینک نےگزشتہ ماہ کے اواخر میں شرح سود 14 اعشاریہ 99 فی صد مقرر کی تھی جو مارکیٹ کی توقعات سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔ سود کی یہ شرح 22 سال کی بلند شرح بھی ہے۔ یہی نہیں بینکوں کے درمیان شرح سود یعنی کراچی انٹر بینک آفرڈ ریٹ (کائبور) بھی 13 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جو 14 اعشاریہ ایک فی صد پر موجود ہے۔
شرح سود میں یہ اضافہ اس وقت سے دیکھا جارہا ہے جب سے اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے 7 اپریل کو ہنگامی اجلاس میں ملک میں بنیادی شرح سود میں یکمشت ڈھائی فی صد کا بڑا اضافہ کیا تھا اور اب ملک میں شرح سود 12 اعشاریہ دو پانچ فی صد ہوچکی ہے۔
شرح سود میں مزید اضافے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں جس سے کاروباری طبقات کی پریشانیاں مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ لیکن معاشی ماہرین کے خیال میں اس سے صرف کاروباری طبقات کی پریشانیاں نہیں بڑھیں گی بلکہ حکومتی قرضوں کے حجم میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگا۔
لندن میں مقیم ماہر معاشیات، مصنف اور پاکستانی معیشت پر مسلسل لکھنے والے کالم نگار یوسف نذر کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے جہاں حکومت کو قرضوں کی ادائیگی میں مزید بوجھ کا سامنا ہو گا وہیں بینکوں کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان مقامی کمرشل بینکوں سے سب سے زیادہ قرض لیتی ہے جو مجموعی قرض کا 70 فی صد ہے جب کہ بقایا 30 فی صد ٹیکسٹائل اور پاور سیکٹر سے منسلک سرمایہ کار لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں شرح سود میں اضافے کے بعد حکومت کوجاری کردہ ٹریژری بلز اور بانڈز پر زیادہ منافع بھی دینا ہوگالیکن دوسری جانب بینکوں کو شرح سود بڑھانے کا سب سے زیادہ فائدہ ہوگا، انہیں اب زیادہ سود پر قرض دینے کا موقع ملے گا جس سے ان کا منافع مزید بڑھے گا۔
یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال بھی پاکستانی کمرشل بینکوں نے 450 ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا تھا۔
امریکہ کے مرکزی بینک نے بھی دو روز قبل ہی شرح سود میں اعشاریہ پانچ فی صد اضافہ کیا ہے جس سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ملکوں اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔
ایسے میں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شرح سود بڑھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ معاشی ماہرین کے مطابق مرکزی بینک جب یہ دیکھتا ہے کہ ملک میں اشیاٗ کی رسد کے مقابلے میں طلب اتنی بڑھ رہی ہے کہ اس سے مہنگائی میں بہت اضافہ ہورہا ہے تو مہنگائی کو قابو میں لانے اور طلب کو کم کرنے کے لیے شرح سود بڑھادی جاتی ہے تاکہ بینکوں سے قرضہ لے کر کاروبار کرنے والے کم قرضہ لیں۔ یوں طلب میں کمی لاکر معیشت میں سست روی لائی جاتی ہے نتیجتاً مہنگائی میں کسی حد تک کمی آجاتی ہے ۔
لیکن یوسف نذر کے مطابق پاکستان کے کیس میں یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ ان کے خیال میں دستیاب معلومات پر ٹھیک طرح سے تجزیہ نہیں کیا جاتا اور اس میں کئی خامیاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجہ طلب میں اضافہ نہیں بلکہ عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتیں بڑھنا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ادریس بھی یوسف نذر کی دلیل سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے بقول شرح سود میں اچانک اور حد سے زیادہ اضافہ کرنا انتہائی غیر منصفانہ ہے اور یہ معیشت، برآمدات اور صنعتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہورہا ہے۔
محمد ادریس نے خبردار کیا کہ شرح سود میں اضافے کے برآمدی کارکردگی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے جو صنعتوں اور مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے مکمل طور پر تباہ کن ہو گا۔ ان کے بقول حد سے زیادہ شرح سود اور کاروبار کرنے کی زیادہ لاگت کی وجہ سے ملک میں کوئی بھی سرمایہ کار صنعت لگانے نہیں آئے آگے گا۔
انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ سود کی شرح میں اضافے کے بعد معاشی سرگرمیاں مانند پڑ سکتی ہیں۔
سرمایہ کاروں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ شرح سود بڑھنے سے نئے پراجیکٹس کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ یہی نہیں پہلے سے جاری منصوبے یا تو سست روی کا شکارہو جائیں گے یا پھر ان کی لاگت میں اضافے سے کاروباری عمل بھی رک سکتاہے۔
'معاشی حکمت عملی کے بجائے قرضوں کے حصول پر معیشت چلائی جارہی ہے'
معاشی ماہر یوسف نذر کہتے ہیں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا واحد حل صرف شرح سود بڑھانا ہی نہیں بلکہ کئی ترقی پزیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی ایسے حل تلاش کرنا ہوں گے جس سے مہنگائی کو کنٹرول کیا جاسکے۔
ان کے بقول حکومت کے پاس کوئی معاشی حکمت عملی موجود نہیں جس سے قرضوں کے حصول کے بجائے ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے، پاکستانی معیشت کا مکمل دارومدار قرضوں کے حصول پر ہوتا جارہا ہے۔ حکومت اپنا بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے مقامی بینکوں یا عالمی مالیاتی اداروں یا ممالک سے قرضہ لیتی ہے۔ یہاں تک کہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی مزید قرض لیا جاتا ہے۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ بغیر کسی معاشی حکمت عملی کے مہنگے قرضوں کے حصول سے صرف وقتی طور پر ہی معاشی حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، مستقل حل برآمدات بڑھانے، درآمدات کم کرنے جب کہ ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنے کے ساتھ حکومتی خرچے کم کرکے بجٹ خسارہ کم کرنے میں ہے۔
یوسف نذر کے مطابق جاری حکومتی کھاتوں کے خسارے یعنی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے غیر ضروری اور پر تعیش درآمدات کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے جب کہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے حکومتی اداروں میں معاشی ڈسپلن قائم کرنا ضروری ہوگیا ہے۔