رسائی کے لنکس

'پی ٹی آئی اراکین کو واضح کرنا ہو گا کہ وہ بغیر دباؤ کے مستعفی ہو رہے ہیں'


پاکستان کے صدر عارف علوی نے جمعرات 22 دسمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس اجلاس میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان اسمبلی اپنے استعفوں کی تصدیق کر سکتے ہیں جس کے بعد وفاق کی سطح پر حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

پی ٹی آئی نے اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد قومی اسمبلی کا رخ نہیں کیا اور اس وقت سے اب تک ان ارکان کی رکنیت کے حوالے سے صورتِ حال واضح نہیں ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ان ارکان کو اگر اپنے استعفے منظور کروانے ہیں تو اس مقصد کے لیے انہیں اسپیکر راجہ پرویز اشرف کے پاس آنا ہوگا۔ پی ٹی آئی ارکان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی استعفے دے چکے ہیں اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری ان کے استعفے منظور کرچکے ہیں ۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ان کے ارکان ،قومی اسمبلی کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک ساتھ اسمبلی جاکر اپنے استعفوں کی تصدیق کردیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اجتماعی طور پر قومی اسمبلی میں آکر استعفے دینے سے معاملہ پھر وہیں کا وہیں رہے گا کیوں کہ آئین میں لکھا ہے کہ ایک تو استعفوں کی تصدیق ہو، دوسرے یہ کہ اسپیکر کا مطمئن ہونا ضروری ہے کہ یہ استعفے کسی دباؤ کے تحت نہیں دیے جا رہے۔


پی ٹی آئی کے ممبران کی قومی اسمبلی میں موجودہ تعداد

اپریل میں جس وقت حکومت تبدیل ہوئی اس سے قبل قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے منتخب اراکین کی کُل تعداد 155 تھی جن میں سے 122 ارکان براہ راست منتخب ہوئے تھے جب کہ 28 خواتین کے لیے مخصوص نشستیں اور پانچ اقلیتی اراکین تھے۔

قاسم سوری کی طرف سے جن ارکان کے استعفے منظور کیے گئے ان میں پاکستان تحریکِ انصاف کے کل 123 اراکین کے استعفے منظور کیے گئے تھے جو کہ اراکین نے اپنی ‘رضامندی‘ سے دیے تھے۔

وہ اراکین جن کے استعفے قاسم سوری نے منظور کیے تھے ان میں 94 منتخب نمائندے تھے، 25 مخصوص نشستوں جب کہ چار اقلیتی نشستوں پر تھے۔

پی ٹی آئی کے جن 32 اراکین نے استعفے نہیں دیے اُن میں منتخب اراکین کی تعداد 28 تھی جب کہ تین ریزرو سیٹوں پر آئے اور ایک اقلیتوں کے لیے مخصوص نشست پر رُکن اسمبلی بنے تھے۔

رواں سال جولائی میں اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے 11 پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظورکرلیے تھے۔ تاہم بعد ازاں یہ ارکان اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے اور الگ سے استعفے دینے سے انکار کیا جس کے بعد ان ارکان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی طرف سے ضمنی انتخاب کے لیے دیا گیا شیڈول منسوخ کردیا گیا ۔


'استعفوں کا دباؤ کے بغیر دیا جانا ضروری ہے'

پاکستان میں سیاسی اور پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اگر جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریکِ انصاف کے اراکین ایک ساتھ آئے تو بھی اس سے فرق نہیں پڑتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ استعفوں کی منظوری کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو دیا گیا استعفیٰ اصلی ہو اور اس کے ساتھ ضروری ہے کہ کسی کا دباؤ نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر راجہ پرویز اشرف اس حوالے سے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی ارکان ان سے ذاتی طور پر رابطہ کر کے کہہ چکے ہیں کہ اُنہوں نے عمران خان کے دباؤ میں آ کر استعفیٰ دیا، وہ ذاتی طور پر مستعفی نہیں ہونا چاہتے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں آ کر استعفی دینے کی تصدیق تو ہو جائے گی لیکن یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کسی رُکن پر کوئی دباؤ تو نہیں ہے اسپیکر انفرادی طور پر ہر رُکن سے ملاقات کرتا ہے۔

اُن کے بقول راجہ پرویز اشرف نے ارکان کو 10، 10 کرکے بلایا تھا لیکن عمران خان نے ارکان کو جانے سے روک دیا تھا۔ لہذا یہ استعفے اس وقت منظور نہیں ہوئے تھے۔ یہ رولز میں لکھا ہوا ہے کہ استعفیٰ درست ہو اور بغیر کسی دباؤ کے ہو۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ استعفے دینے والے بھی بہت زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آرہے۔ اگر ان کو استعفے دینے تھے تو اسپیکر کے پاس چلے جاتے لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں گیا۔

اُن کے بقول ان ارکان کو بہت سے فوائد حاصل ہیں، انہیں تنخواہیں مل رہی ہیں اور اگر نہیں مل رہیں تو وہ جمع ہورہی ہیں، وہ اس وقت لاجز میں مقیم ہیں اس کے ساتھ ساتھ بطور رکن اسمبلی انہیں بہت سے استحقاق حاصل ہیں۔


اس سوال پر کہ حکومت پر دباؤ کس طرح بڑھ رہا ہے؟ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ حکومت کے اوپر دباؤ تو ہے کہ ایک ہی وقت میں 123 ارکان اسمبلی کے مستعفی ہونے کی صورت میں ان نشستوں پر الیکشن کروانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔

اُن کے بقول حکومت کے لیے مشکلات پہلے ہی ہیں ایسے میں یہ الیکشن کروانا ان کے لیے مشکل ہوگا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ معاملہ جوں کا توں اپریل تک چلتا رہے گا اور آئین کے مطابق اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے 120 دن پہلے انہیں منظور کرلیا جائے گا کیوں کہ اس کے بعد منظور ہونے والے استعفوں کے لیے الیکشن کروانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

سینئر صحافی ایم بی سومرو نے اس حوالے سے کہا کہ ان ارکان کو قومی اسمبلی آنے سے کسی صورت روکا نہیں جاسکتا کیوں کہ یہ اس وقت ارکان اسمبلی ہیں۔

اُن کے بقول اگر وہ ایوان میں آکر اپنے استعفوں کی تصدیق کرتے ہیں تو اسپیکر کے لیے ان کی منظوری ضروری ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اب اصل سوال یہ ہے کہ کتنے ارکان قومی اسمبلی میں آتے ہیں کیوں کہ 155 میں سے 32 ارکان تو پہلے ہی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG