آپ کا تعلق کس مذہب سے ہے؟ یہ سوال آج کل اگر آپ امریکہ میں کسی سے کریں تو بہت ممکن ہے آپ کو جواب یہ ملے کہ "کسی سے بھی نہیں!"
امریکہ میں ایسے بہت سے سروے کئے جاتے ہیں، جن میں اکثر شہریوں سے ان کی مذہبی وابستگی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، تاکہ متعدد موضوعات پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے رجحانات کو جانا جا سکے۔ کبھی صرف مذہبی رجحانات جاننے کے لئے ہی خصوصی سروے کئے جاتے ہیں۔
ایسے ہی دو مختلف جائزوں میں یہ سامنے آیا ہے کہ مذہبی شناخت کے سوال پر ایک گروہ کی تعداد تیزی سے بڑھتی نظر آرہی ہے اور یہ گروہ ان افراد پر مشتمل ہے جو خود کو کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں پاتے۔ اس گروہ کو امریکہ میں اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کی جانب سے "nones" کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کے ایک نئے سروے کے مطابق ان میں کچھ لوگ خود کو ملحد مانتے ہیں جبکہ کچھ متشکک۔ بعض کے بقول، وہ کسی باقاعدہ مذہب کے بجائے روحانیت پر یقین رکھتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق امریکہ کی٪29 بالغ آبادی خود کو کسی منظم مذہب کا حصہ نہیں سمجھتی۔ اب سے دس سال پہلے یہ شرح ٪19 فیصد تھی۔ ابتدا میں ایسے افراد زیادہ تر بڑے شہروں میں پائے جاتے تھے مگر اب یہ امریکہ کے طول و عرض میں پائے جاتے ہیں اور یہ مختلف عمر، نسل،سماجی اور معاشی پس منظر رکھتے ہیں۔
ان میں 30 فیصد ایسے لوگ ہیں جو خدا یا کسی خدائی طاقت پریقین تو رکھتے ہیں مگر عبادت گاہوں کا رخ نہیں کرتے۔
نٹالی چارلس ایک ایسی ہی ہم جنس پرست نوجوان ہیں جو خدا کے وجود پر تو یقین رکھتی ہیں مگر مذہب کی تشریح پر نہیں۔ بیپٹسٹ چرچ جانے پر انہیں یہ احساس ہوا کہ یہاں مہاجرین اور جنسیت کے حوالے سے بتائی جانے والی باتیں خدا سے متعلق ان کے اپنے خیالات سے متصادم تھیں اس لئے وہ پلٹ کر دوبارہ کبھی وہاں نہیں گئیں۔
بطور ہم جنس پرست ( queer) اپنی شناخت کو رد کئے جانے پر شروع میں نٹالی نےجواباً خدا کے وجود کو رد کردیا اور ملحد ہوگئیں۔ چونکہ بچپن سے مذہبی رجحان کے ساتھ پلی بڑھی تھیں تو دل پھر قادر مطلق کے بارے میں سوچنے لگا اور agnostic یا متشکک ہوئیں (یعنی ایک ایسا شخص جو خدا کے وجود کو نہ رد کرتا ہو نہ اس کا قائل ہو)۔ اس کے بعد ان کا رجحان روحانیت کی طرف ہوا۔ آج وہ مذہبی طور پر باعمل ہوئے بغیر اپنی ذات کا جھکاؤ روحانیت کی طرف پاتی ہیں۔
آج امریکہ میں نٹالی جیسے بہت سے لوگ ہیں جن سے اگر آپ ان کا مذہب پوچھیں تو جواب ملے گا "کچھ نہیں".
امریکہ کی سانٹا کلارا یونیورسٹی کی پروفیسر الزبتھ ڈریسچر کے مطابق اگر ایسے لادین افراد کا کوئی مذہبی نام ہوتا، تو یہ اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا مذہب کہلاتا۔
مگر چونکہ یہ کوئی باقاعدہ مذہبی گروہ نہیں، اس لئے ایسے افراد اپنے ذاتی فلسفوں کی بنیاد پر اپنی راہنمائی آپ ہی کر رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور پبلک افئیرز تحقیق کے ادارے NORC کے مشترکہ پول میں لادین افراد میں ٪30 فیصد ایسے لوگ تھے جو خدا یا کسی ماورائی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کی شرح ٪19 فیصد سامنے آئی جن کا کسی بھی مذہب سے تعلق نہ ہونے کے باوجود ان کے نزدیک دین کی بہرحال کچھ اہمیت تھی۔
تقریباً ٪12 افراد کا کہنا تھا کہ وہ کچھ مذہبی بھی ہیں اور روحانی بھی جبکہ اٹھائیس فیصد افراد خود کو روحانی طور پر بیدار تو مانتے ہیں مگر مذہبی نہیں۔
30 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ باقاعدگی سے میڈیٹیشن یا مراقبہ کرتے ہیں جبکہ 26 فیصد نے بتایا کہ وہ مہینے میں کئی بار کسی عبادت گاہ جائے بغیر ہی عبادت کرلیتے ہیں۔ کم تعداد میں ہی سہی مگر بعض لوگ وقتاً فوقتاً مذہبی یا روحانی راہنماؤں سے بھی رابطہ کرتے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کی سروے رپورٹ کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ لادینیت کی طرف راغب ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق ماضی میں پروٹسٹنٹ عیسائیت سے رہا ہے، کیونکہ امریکہ میں پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تعداد میں دس فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور NORC کے اس پول میں 1083 امریکی شہریوں کو شامل کیا گیا تھا جس میں چار فیصد کی کمی بیشی کا امکان ہے۔
پیو تحقیقاتی سروے مئی سے اگست کے دوران 3937بالغ افراد میں کیا گیا جس میں 2.1 کمی بیشی کی گنجائش ہے۔
[اس خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے]