رسائی کے لنکس

امریکہ: پیدائشی حق شہریت، ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر اور عدالتی حکم پر ایک نظر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے والدین کے بچوں کے حق شہریت سے انکار کرنے والے ایگزیکٹو آرڈر کو قانونی رکاوٹوں کا سامناکرنا پڑ رہا ہے ۔
  • امریکہ کے ایک ڈسٹرکٹ جج نے حکمنامےکو صریحاً غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد کو عارضی طور پر روک دیا ہے ۔
  • پیدائشی حق شہریت کیا ہے ؟ اور ٹرمپ کے حکمنامے کو کن مقدمات کا سامنا ہے اس بارے میں کچھ تفصیلات پیش ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے والدین کے بچوں کے حق شہریت سے انکار کرنے والے ایگزیکٹوآرڈر کو قانونی رکاوٹوں کا سامناکرنا پڑ رہا ہے ۔

سیاٹل کے ایک ڈسٹرکٹ جج جان سی کفینور نے جمعرات کو اس حکمنامےکو صریحاً غیر قانونی قرار دیتے ہوئےمزید دلائل پیش کیے جانے تک اس پر عمل درآمد کو عارضی طور پر روک دیا ہے ۔

محکمہ انصاف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کا بھر پور دفاع کرے گا, جو بقول اسکے"امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کی صحیح تشریح کرتا ہے۔"

شومیٹ نے جج سے استدعا کی کہ انہیں اس کیس کے حق میں مکمل بریفنگ دینے کا موقع دیا جائے نہ کہ اس پر عمل درآمد کو روکنے کے لیے 14 دن کا عارضی حکم امتناعی جاری کیا جائے۔

پیدائشی حق شہریت کیا ہے ؟ اور ٹرمپ کے حکمنامے کو کن مقدمات کا سامنا ہے اس بارے میں کچھ تفصیلات پیش ہیں۔

پیدائشی حق شہریت کیا ہے ؟

پیدائشی حق شہریت سے مراد یہ اصول ہے کہ کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والا بچہ وہاں کا شہری ہوتا ہے۔ امریکہ میں، یہ اصول آئین کی 14ویں ترمیم میں درج کیا گیا ہے ، جس کے مطابق ، وہ تمام افراد جو امریکہ میں پیدا ہوئے ہوں یا قانونی طریقے سے اس کی شہریت حاصل کریں اور اس کے دائرہ اختیار کے تابع ہوں ، وہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اس ریاست کے شہری ہیں جہاں وہ رہتے ہیں ۔

اس آئینی ترمیم کی 1968 میں توثیق ہوئی تھی تاکہ خانہ جنگی کے بعد سابق غلاموں کی شہریت کو یقینی بنایا جا سکے۔

بلا روک ٹوک امیگریشن پر تنقید کرنے والوں کا جواز ہے کہ یہ اصول لوگوں کو غیر قانونی طور پر امریکہ آنے یا اس میں رہنے کی ترغیب فراہم کرتا ہے: وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کے بچے امریکہ میں پیدا ہوں گے تووہ اس کے شہری ہوں گے ، جو بعد میں اپنے والدین کو قانونی طور پر مستقل رہائشی بننے کے لیے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔

امریکہ میں غیر قانونی امیگریشن کے خاتمے کے لیے صدر ٹرمپ نے دوسری مدت کی اپنی حلف برداری کے بعد پیر کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ۔

اس حکمنامے کے تحت 19 فروری کے بعد پیدا ہونے والے ان بچوں کو جن کے والدین امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہتے ہیں انہیں امریکی شہریت نہیں دی جائے گی۔ اس حکمنامےکے تحت امریکی ادارے ان کے لیے کسی قسم کی دستاویزات جاری نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی ایسی ریاستی دستاویز قبول کریں گے جس میں ان بچوں کی امریکی شہریت کو تسلیم کیا گیا ہو ۔

اس حکمنامے نے ملک بھر میں فوری قانونی مشکلات کھڑی کر دی ہیں ، اور امریکہ کی 22 ریاستوں او ر تارکین وطن کے متعدد گروپس کی جانب سے کم از کم پانچ مقدمات سامنے لائے جارہے ہیں ۔ سب سے پہلی سماعت واشنگٹن ، اریزونا ، اوریگن اور الی نوائے کی جانب سے لائے گئے ایک مقدمے کی ہوئی ۔

اگلے قانونی چیلنج کیا ہوسکتے ہیں؟

جمعرات کو ایک ریاست واشنگٹن کے ایک وفاقی جج کا فیصلہ اس حکمنا مے کے لیے ایک حکم امتناعی تھا۔ اس فیصلے میں انتظامیہ کو اگلے 14 دن تک قومی سطح پر اس قانون کے نفاذ یا اس پرعمل درآمد سے روک دیا گیا ۔ اگلے دو ہفتوں میں دونوں فریق اس ایگزیکٹو آرڈر کے قانونی میرٹس( اس کے درست یا نہ درست ہونے) کے بارے میں مزید دلائل دیں گے ۔

اسی دوران حکمنامے کو چیلنج کرنے کے لیے دوسرے مقدما ت بھی لائے جارہے ہیں۔

اگلے ہفتے، وسطی اٹلانٹک کے علاقے میں قائم تارکین وطن کے حقوق سے متعلق ایک غیر منافع بخش تنظیم سی اے ایس اے ، (CASA )کی جانب سے لائے گئے ایک مقدمے کی سماعت میری لینڈ میں ہوگی ۔

اس کی سماعت 5 فروری کو میری لینڈ کے شہر گرین بیلٹ میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں ہوگی ۔ وسطی اٹلانٹک کے علاقے میں ریاست ڈیلاوئیر، میری لینڈ، نیو جرسی ، نیو یارک ا اور پنسلوینیا اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا شامل ہیں۔

ریاستوں کا استدلال کیا ہے

18 ریاستوں، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور سان فرنسسکو کی جانب سے ایک اور مقد مے کےلیے، جس کی قیادت نیو جرسی کرے گی ، اور میسا چوسٹس میں برازیلین ورکر سینٹر کی طرف سے لائے گئے ایک چیلنج کی سماعت کے لیے ابھی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی ہے ۔

ایگزیکٹو آرڈر کی آئینی حیثیت پر بحث کرنے کے علاوہ، ریاستوں کا کہنا ہے کہ اس حکم کے تحت متاثرہ تمام بچوں کو ملک بدر کر دیا جائے گااور ان میں سے بہت سے بے وطن ہو جائیں گے ۔ ریاستوں کا جواز ہے کہ اس سے ان کے حقوق چھن جائیں گے اور وہ معاشی یا شہری زندگی میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہیں گے۔

جج نے ٹرمپ کے حکمنامے کو کیوں روکا؟

ریاست واشنگٹن کے جج کفینور نے جمعرات کی سماعت کے دوران پنے استدلال کی تفصیل نہیں بتائی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ حکم "واضح طور پر غیر آئینی" ہے۔

محکمہ انصاف کے وکیل بریٹ شومیٹ نے کہا کہ وہ احترام کے ساتھ اس بات سے متفق نہیں کہ یہ غیر آئینی حکم ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے بعد میں ایک بیان میں کہا کہ وہ صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کا بھر پور دفاع کرے گا۔

ریاستوں نے کہا ہے کہ یہ بات اچھی طرح سے طے ہے کہ 14 ویں آئینی ترمیم پیدائشی حق شہریت کی ضمانت دیتی ہے اور یہ کہ صدر کو یہ تعین کرنے کے اختیار نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت کسے امریکی شہریت دی جانی چاہیے اور کسے نہیں دی جانی چاہیے ۔

جج کفینور نے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے اٹارنی بریٹ شومیٹ سے کہا ، ’’میں چالیس سال سے بینچ پر ہوں ، مجھے کوئی ایک بھی ایسا مقدمہ یاد نہیں جس میں سوال اتنے واضح طور پر پیش کیے گئے ہوں جیسا کہ اس مقدمے میں پیش کیے گئے ہیں۔‘‘

محکمہ انصاف کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ،’’ہم عدالت اور امریکی عوام کے سامنے، جو ہمارے ملک کے قوانین کا نفاذ ہوتا دیکھنے کے لیے بے چین ہیں مکمل شواہد کے ساتھ دلائل پیش کرنے کے منتظر ہیں‘‘ ۔

جج کفینور کون ہیں ؟

جج کوفینور، فائل فوٹو
جج کوفینور، فائل فوٹو

84 سالہ جج کفینور نے اپنی قانون کی ڈگری 1966 میں یونیورسٹی آف آئیووا سے حاصل کی تھی اور انہیں صدر رونالڈ ریگن نے 1981 میں بنچ میں تعینات کیا تھا۔

وہ چالیس سال سے زیادہ عرصے سے ایک وفاقی جج رہےہیں۔

وہ ایک سخت موقف کے حامل ، اپنی رائے پر قائم رہنے والے اور بعض اوقات تند مزاج جج کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG