|
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا کہ صدر کا خیال ہے کہ کیمپس کی عمارت پر زبردستی قابض ہونا ایک بالکل غلط طریقہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ’پرامن احتجاج کی مثال نہیں ہے‘۔
ترجمان نے کہا کہ صدر بائیڈن کو مظاہرین کے جذبات کا احساس ہے، لیکن اس سے غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کی حمایت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر میں ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کا خیال رکھیں اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اُس خطے کے لیے ایسے فیصلے کریں جو ان کے مفادات کی حمایت کرتے ہوں۔
کربی نے احتجاجی طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہ احتجاج پرامن طریقے سے کرنا ہے۔ آپ کسی کو تکلیف نہیں دے سکتے اور آپ اپنے ساتھی طلبہ کی تعلیم میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔
کربی کا مزید کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس ان مظاہروں کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔
مظاہرہ کرنے والے، جنہوں نے اپنے چہرے نقاب میں چھپائے ہوئے تھے، نیویارک کی آئیوی لیگ یونیورسٹی کے ہملٹن ہال کی کھڑکیاں توڑ کر اندر داخل ہوئے اور وہاں موجود دھاتی میزوں کو ڈھال بنا لیا۔
فلسطینیوں کے حق میں اسٹوڈنٹس کے مظاہروں کی شروعات کولمبیا یونیورسٹی سے ہی ہوئی تھی جس کے بعد یہ مظاہرے ملک بھر کی درجنوں یونیورسٹیوں میں پھیل چکا ہے۔
یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم اکثر یہودی طلبہ کیمپس نہیں آ رہے اور انہوں نے انتظامیہ سے یہ کہتے ہوئے احتجاجی کیمپ ختم کرانے کا مطالبہ کیا ہے کہ اس سے یہود مخالف جذبات کو ہوا مل رہی ہے۔ جب کہ مظاہرے کرنے والے طلبہ کے لیڈر اس کی تردید کرتے ہیں۔
( اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)
فورم