|
کراچی کے رہائشی 32 سالہ سلمان علی پاکستان کی ایک بڑی اکاؤنٹنگ فرم میں چار سال تک ملازمت کے علاوہ ٹریڈنگ کے کاروبار سے بھی گزشتہ کئی سال سے وابستہ رہے۔
وہ ملک میں ایک معقول ماہانہ آمدن کے ساتھ بہتر زندگی گزار رہے تھے اور انہوں نے اپنی کمپنی باقاعدہ رجسٹرڈ کروا رکھی تھی اور ہر سال باقاعدگی سے اپنی تنخواہ کے علاوہ کاروبار سے بھی ٹیکس بھی ادا کر رہے تھے۔
لیکن گزشتہ دو سالوں سے انہیں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے بینک اکاونٹس سے رقوم کی منتقلی پر مسلسل نوٹس مل رہے تھے۔ انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے ایف بی آر کو جوابات بھی ارسال کر دیے۔ لیکن وہ ٹیکس افسران کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
ایسے میں گزشتہ سال نومبر میں ان کے خاندان ہی کے ایک فرد کو موبائل فون چھیننے کی واردات میں ڈاکوؤں نے کراچی کی ایک سڑک پر فائرنگ کر کے زخمی کر دیا جس سے ان کا خاندان کئی ماہ سے ٹراما کا شکار رہا۔ جب کہ ٹیکسز کی بھرمار اور پھر ٹیکس فائل کرنے پر مزید سوالات سمیت ملک کی مجموعی معاشی اور سیاسی حالات نے انہیں ملک چھوڑ کر کسی اور ملک میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان کا کہنا تھا کہ کئی مہینوں کی سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے والدین کو بھی بمشکل راضی کر لیا اور یوں وہ رواں سال کے شروع میں پاکستان سے متحدہ عرب امارات منتقل ہو گئے۔
سلمان کو دبئی میں ایک اور فرم میں ملازمت بھی مل چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی اگلی منزل یورپ ہے جہاں وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو ہر ممکن طور پر بہتر بنا سکیں گے۔
صرف سلمان علی ہی نہیں بلکہ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے پاکستان کے اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ملک سے انتہائی ہنر مند افراد کی بڑی تعداد بیرون ملک منتقل ہو چکی ہے۔
گزشتہ سال کی نسبت اس میں تقریباً 119 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والے انتہائی ہنر مند افراد کی تعداد 2022 میں 20 ہزار 865 تھی جو 2023 میں بڑھ کر 45 ہزار687 ہو گئی ہے۔
اسی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نیم ہنر مند افراد کے ملک کے چھوڑ کر دیگر ممالک میں کام کرنے کی غرض سے منتقل ہونے کی شرح میں بھی 26.6 فی صد اور 2.28 فی صد کا بالترتیب اضافہ دیکھا گیا ہے۔
دوسری طرف ملک چھوڑ کر جانے والے غیر ہنر مند افراد کی کیٹگری میں بھی 8.7 فی صد کا اضافہ دیکھا گیا۔ تاہم بیرون ملک ملازمت کے لیے رجسٹرڈ ہنر مند کارکنوں کی تعداد 2022 میں تین لاکھ 47 ہزار 733 سے کم ہو کر 2023 میں تین لاکھ 14 ہزار 932 ہو گئی ہے۔
یہ رجحان 2024 میں بھی زور و شور سے جاری ہے جب 40 مختلف کیٹیگریز میں مئی تک کے اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ 81 ہزار سے زائد ہنر مند افراد کام کی غرض سے بیرون ملک منتقل ہو گئے۔
ان میں اکاؤنٹینٹس، زراعت سے منسلک افراد، کمپیوٹر انالسٹس، ڈرافٹ مین، فن کار، لوہار، سنار، کارپینٹرز، مکینکس، فارماسسٹس، درزی، استاد، ویٹرز اور دیگر شامل ہیں۔ جب کہ اسی دوران ایک لاکھ 38 ہزار سے زائد رجسٹرڈ مزدور بھی بیرون ملک روزگار کی تلاش میں منتقل ہو چکے ہیں۔
اگر صرف دو سال کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دو سالوں میں پاکستان سے 16 لاکھ 94 ہزار سے زائد رجسٹرڈ افراد ملازمتوں کی غرض سے مختلف ممالک میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ جب کہ غیر قانونی طور پر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔
بیرون ملک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کی منتقلی؛ معیشت کے لیے بہتر شگون ہے؟
سابق نگراں وزیرِ اعظم اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ اور ان جیسے دیگر حکومتی عہدے دار اس رجحان کو پاکستان کی مشکل میں گھری معیشت کے حوالے سے خوش آئند اور اچھی علامت قرار دیتے رہے ہیں اور ان کی نظر میں وہ افراد ملک کے لیے قیمتی زرِمبادلہ کمانے کا باعث بنتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی معیشت میں بیرونی زرِمبادلہ کمانے کے لیے برآمدات کے بعد سب سے زیادہ ان ترسیلات زر ہی کا ہاتھ ہوتا ہے جو بیرون ملک مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں۔ بلکہ گزشتہ چند برسوں میں برآمدات اور ترسیلات زر تقریباً برابر ہو چکی ہیں۔ اس وقت ایک کروڑ 35 لاکھ سے زائد پاکستانی دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔
لیکن لاہور میں مقیم امیگریشن ماہر اکرم علی سہگل جیسے بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کا بیرون ملک منتقل ہونا اس بات کی نشاندہی ہے کہ لوگوں کو شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ یہاں رہ کر ان کی معاشی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہیں۔
اکرم سہگل کے مطابق صاف بات یہ ہے کہ یہاں اکثر لوگوں کی وہ امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں جس سے کسی بہتر مستقبل کی آس ہو سکے۔ یا پھر اس کی وجہ مواقع کی بھی کمی ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اکرم سہگل کا کہنا تھا کہ کم آمدنی والے ممالک سے ترقی یافتہ ممالک منتقلی کا عالمی رحجان پایا جاتا ہے اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔
اُن کے بقول مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بالخصوص اور بالعموم عام عوام ملک کے مستقبل کی امید کھوتے نظر آرہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے معاشی اور سیاسی حالات گزشتہ چند برسوں میں بڑی تیزی سے خراب ہوئے ہیں اور جس کو موقع مل رہا ہے ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انتہائی ہنر مند افراد کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی پاکستان کے لوگوں میں پائی جانے والی بے پناہ صلاحیت اور ترقی کے لیے خطرہ کی علامت بن چکا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو سوچنا ہو گا کہ انتہائی قابل اور تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد کیوں ملک چھوڑ کر جانا چاہتی ہے۔
تاہم اپنے حالیہ انٹرویو میں وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ حکومت نے بہت زیادہ تنخواہ لینے والے افراد پر عائد ٹیکس سلیب میں کوئی اضافہ نہیں کیا تاکہ انہیں ملک سے باہر جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
'لوگ ملک کے معاشی اور سیاسی نظام سے مایوس ہیں'
لیکن معاشی تجزیہ کار عبدالعظیم کا خیال ہے کہ بہت سے لوگ جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں ان میں سے بیش تر ملک کے معاشی اور سیاسی نظام سے مایوس ہیں اور مستقبل قریب میں ترقی اور خوشحالی کے لیے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔
ایسے میں ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جو مواقع کی کمی کے باعث بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں کیوں کہ ملک میں چند سالوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری بہت کم دیکھی گئی جب کہ گزشتہ سال تو کسی بھی سال میں ملکی تاریخ کی کم ترین بیرونی سرمایہ کاری آ سکی۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں مقیم اپنے خاندانوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی بیرون ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں بلکہ ملک کی معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
فورم