|
اسلام آباد -- سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ ایک بار پھر مؤخر کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو تیسری بار مؤخر کیا گیا ہے۔
بعض مبصرین حکومت اور تحریکِ انصاف کے درمیان جاری مذاکرات کو فیصلہ مؤخر ہونے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے قائدین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ مذاکرات پر اس فیصلے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ القادر ٹرسٹ اور 190 ملین پاؤنڈ کیس سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے۔
'مذاکرات ہی اصل وجہ ہیں'
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات ہی اصل وجہ ہیں جن کی وجہ سے یہ فیصلہ سامنے نہیں آ رہا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت مذاکرات میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے اور بہت جلد ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے والا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیصلے میں تاخیر عمران خان اور ان کی اہلیہ کی عدم پیشی کی وجہ سے ہے اور سب لوگ 20 جنوری کا انتظار کر رہے ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کا فیصلہ جلد سامنے آئے کیوں کہ ہمیں یہ فیصلہ دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے اور لگ رہا ہے کہ عمران خان کو سزا سنائی جائے گی۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ جلد یہ فیصلہ آئے اور ہم اسے دیگر اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کر سکیں۔
تجزیہ کار اور سینئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ بالکل ٹھوس وجوہات کی بنا پر مؤخر ہوا ہے کیوں کہ اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر گزشتہ چند دنوں کی پیش رفت دیکھیں تو اس میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے مختلف لوگوں کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے۔
اُن کے بقول اس ریلیف کی وجہ سے پی ٹی آئی کی قیادت پہلے کے مقابلے میں زیادہ پراعتماد نظر آ رہی ہے۔ اتوار کو ہونے والی ملاقاتوں میں بھی علی امین گنڈا پور پہلے عمران خان سے ملے تھے اور اس ملاقات میں اہم پیغامات پہنچائے گئے ہیں جس کے بعد مذاکراتی ٹیم کی ملاقات ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے ریلیف کا آغاز ہو گیا ہے اور آئندہ چند دنوں میں ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
'ملزم موجود نہ ہو تو عموماً جج فیصلہ نہیں سناتے'
تجزیہ کار اور سینئر صحافی فاروق عادل اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سننے کے لیے عمران خان آئے ہی نہیں اور نہ ہی بشریٰ بی بی آئیں جس کے بعد جج نے فیصلہ مؤخر کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلے کے وقت ملزمان کا عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس سوال پر کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنایا گیا تھا؟
فاروق عادل کا کہنا تھا کہ جج کے پاس اختیار تو ہے لیکن عمومی طور پر ملزمان کا کمرۂ عدالت میں موجودہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔
فاروق عادل کے بقول "میری نظر میں ان مذاکرات کے حوالے سے حکومت پر زیادہ دباؤ ہے کیوں کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اس کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عائد ہو گی۔ پی ٹی آئی اس بارے میں اپنے مطالبات منظور نہ ہونے کا کہہ کر ذمے داری سے بچ جائے گی لیکن حکومت کو یہ سب فیس کرنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں اصل مذاکرات تو تیسری قوت کر رہی ہے لہذا جب تک ان کے بارے میں تحریکِ انصاف اور عمران خان کے بیانات اور زبان میں نرمی نہیں آتی اس وقت تک پیش رفت ہونا بہت مشکل ہے۔
فاروق عادل کے بقول اس وقت تمام لوگ 20 جنوری کا انتظار کر رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ 20جنوری کو امریکہ میں آنے والی تبدیلی کے بعد پاکستان میں بھی تبدیلی آئے گی۔
اُن کے بقول عمران خان اسی وجہ سے اس کیس کو تاخیر کا شکار بنا رہے ہیں کیوں کہ اگر 20جنوری کے بعد عمران خان کے حق میں امریکہ سے کوئی پیغام آ گیا تو ان کی جماعت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
'تیسری قوت چاہے گی تو پی ٹی آئی کو ریلیف مل جائے گا'
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ تیسری قوت کے اس وقت پی ٹی آئی کے براہ راست رابطے موجود ہیں اور اس بات کے قومی امکانات ہیں کہ ان کو مختلف وجوہات کی بنا پر ریلیف مل سکے۔
اُن کے بقول اسٹیبلشمنٹ بھی چاہتی ہے کہ ملک کا نظم و نسق بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا رہے۔ اس مقصد کے لیے پی ٹی آئی کو بالکل ریلیف مل سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی ایسے مذاکرات کے موقع پر تلخ بیانات سامنے آتے رہے ہیں لیکن اگر تیسری قوت کے ساتھ ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ہوئی تو عمران خان کو لازمی ریلیف مل سکتا ہے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
اس معاملہ پر فیصلہ نہ آنے کا ذمے دار حکومت عمران خان کو ٹھہراتی ہے جن کا کہنا ہے کہ 190 ملین پاﺅنڈ کیس کا پیر کو ہونا تھا۔ لیکن ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ عمران خان نے عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی عادت بنا لی ہے۔ اس سے پہلے فارن فنڈنگ کیس میں چھ سال تک غیر حاضری اور تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔
توشہ خانہ کیس میں بھی انہوں نے تاخیری حربے استعمال کیے جن میں کبھی وکیل تبدیل کئے، کبھی وکالت نامے تبدیل ہوئے۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ہیرے کی انگوٹھیاں، القادر ٹرسٹ کے لیے زمین اس کیس سے منسلک ہیں، یہ محض اتفاق نہیں تھا۔ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
خیال رہے کہ تحریکِ انصاف کے قائدین اور عمران خان ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
فورم