رسائی کے لنکس

تحریکِ عدم اعتماد: حکومت اور اپوزیشن کے اسلام آباد میں جلسوں سے کیا حاصل ہو سکتا ہے؟


پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ جب کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی شہرِ اقتدار میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ جب کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی شہرِ اقتدار میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر پارلیمنٹ ہاؤس میں رائے شماری کے موقع پر حکومت اور حزبِ اختلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا گیا ہے، تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اجلاس بلانے کے تین روز بعد اور سات روز سے پہلے اسپیکر کو تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری کرانا ہو گی۔

حکومت اور حزبِ اختلاف پارلیمنٹ کے اندر عددی اکثریت ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بڑے عوامی جلسوں کا انعقاد بھی کر رہے ہیں۔

حکمران جماعت تحریکِ انصاف 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ کر رہی ہے تو حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جن کے اختتام پر جلسہ ہو گا۔

جمعرات کو وزیراعظم عمران خان نے عوام کو جلسے کی دعوت دیتے ہوئے اپیل کی ہے کہ پوری قوم 27 مارچ کو میرا ساتھ دے اور بتائے کہ ہم بدی کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نیکی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

دوسری جانب مولانا فضل الرحمن 26 مارچ کو ڈیرہ اسماعیل خان سے مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوں گے جن کے ساتھ مختلف مقامات پر دیگر قافلے بھی شامل ہوجائیں گے۔

تحریکِ عدم اعتماد: 'اگر تصادم ہوا تو فوج مداخلت کر سکتی ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:58 0:00

مسلم لیگ (ن) نے اپنے لانگ مارچ کا 24 کے بجائے 26 کو لاہور سے آغاز کا فیصلہ کیا ہے جو کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی قیادت میں 28 مارچ کو اسلام آباد پہنچے گا۔

جلسوں کا مقصد عوامی مقبولیت ثابت کرنا ہے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف عوامی اجتماعات کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار چاہتی ہیں تاکہ بتاسکیں کہ موجودہ حالات میں عوام ان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔

تجزیہ نگار افتخار احمد کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف عوامی جلسے کے ذریعے منحرف اراکین کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے تاکہ وہ عدم اعتماد پر حزبِ اختلاف کا ساتھ نہ دیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف بھی بتانا چاہتی ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور اس کے لیے لانگ مارچ کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد ایک آئینی اور پارلیمانی عمل ہے جس پر آئین میں دیے گئے طریقۂ کار پر چلنا چاہیے، تاہم برسراقتدار جماعت آئین میں دیے گئے طریقۂ کار پر عمل کی بجائے مشکل صورتِ حال پیدا کرنا چاہتی ہے۔

افتخار احمد نے الزام لگایا کہ حکمران جماعت آئین کو چھوڑ کر دھرنا سیاست کے ذریعے پارلیمنٹ کو یرغمال بنانا چاہتی ہے جس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ " ووٹ پارلیمنٹ کے اندر ڈالے جانے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی جماعت 10 لاکھ لوگوں کو لے آئے اور پارلیمنٹ کو دباؤ میں لائے۔

مسلم لیگ (ن) نے بھی اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے بھی اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔

سینئر تجزیہ کار ارشاد عارف کہتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوری روایات اتنی مستحکم نہیں رہیں کہ تمام معاملات ایوان کے اندر یا عوامی رائے کے مطابق طے پا جاتے ہوں۔ یہاں پریشر گروپس یا دیگر عوامل سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی عمل پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اسی بنیاد پر تحریک انصاف اپنے کارکنان کے ذریعے منحرف اراکین پارلیمنٹ کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے تاکہ وہ پارٹی پالیسی کی مخالفت نہ کریں۔

اُن کے بقول جلسوں کے ذریعے حکومت اور حزبِ اختلاف عوامی مقبولیت ثابت کرنا چاہتی ہیں اور مقتدر قوتوں کو بھی باور کروایا جاتا ہے کہ وہ یہ دیکھ کر اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈالیں۔

ارشاد عارف کے بقول جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا تو انہوں نے بھی عوامی اجتماعات کے ذریعے اپنی مقبولیت ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔

اپوزیشن جماعتیں پراُمید ہیں کہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔
اپوزیشن جماعتیں پراُمید ہیں کہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔

تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد سے ملک کے سیاسی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ایسے میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایک ہی مقام پر مخالف سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد سے تصادم بھی ہو سکتا ہے۔

حکومت اور حزبِ اختلاف کے اسلام آباد میں جلسے:

عوامی طاقت کا اظہار یا مقتدر حلقوں کے لیے پیغام؟

تصادم سے تیسرا فریق فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے تحریکِ انصاف اور حزبِ اختلاف کے جلسے کے لیے الگ الگ مقامات کا تعین کیا ہے۔ تحریکِ انصاف پریڈ گراؤنڈ جب کہ حزبِ اختلاف پشاور موڑ پر اپنا سیاسی اکٹھ کرے گی۔

ارشاد عارف کہتے ہیں کہ عام طور پر انتخابات کے موقع پر ایک شہر میں مخالف سیاسی اجتماعات ہوتے رہتے ہیں تاہم اگر سیاسی جماعتوں میں سے کوئی ایک محاذ آرائی چاہتا ہے تو تصادم ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ تصادم اس صورت میں بھی ہوسکتا ہے اگر تیسرا فریق اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورتِ حال کا پیدا ہونا سیاسی جماعتوں کے حق میں نہیں ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جمہوری عمل غیر مستحکم ہوسکتا ہے۔

افتحار احمد کہتے ہیں کہ اسلام اباد کی انتظامیہ نے دونوں جماعتوں کے جلسوں کے لیے الگ الگ مقامات کا تعین کیا ہے اور ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہونی چاہیے جس سے تصادم کا خدشہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کا دارو مدار سیاسی قیادت پر ہو گا کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں تصادم چاہتی ہے یا اس سے بچنا چاہتی ہے۔

XS
SM
MD
LG