پاکستان کے دفتر خارجہ نے باضابطہ طور پر ایسی قیاس آرائیوں کی تائید کی ہے کہ برکس اجلاس میں پاکستان کو بطور مبصر شرکت کی دعوت تنظیم کے ایک رکن ملک کی جانب سے روکے جانے کے سبب نہیں بھجوائی گئی تھی۔ تاہم دفتر خارجہ کے برکس اجلاس کی میزبانی پر چین کو مبارکباد بھجوائی ہے۔
رواں ماہ بیجنگ نے 23 اور 24 جون کو برکس اجلاس کی میزبانی کی تھی جس میں شامل ممالک عالمی آبادی کی 40 فی صد اور دنیا کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تقریباً ایک چوتھائی حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
برکس دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کا ایک بااثر کلب ہے جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
رواں سال برکس کی جانب سے عالمی ترقی پر اعلیٰ سطح کا ڈائیلاگ منعقد کیا گیا جس میں کئی نان ممبر ممالک نے بھی اجلاس میں ورچوئل یعنی آن لائن شرکت کی۔ لیکن پاکستان کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی،اس اجلاس میں ایران سمیت 17 سے زائد ممالک شریک تھے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہ کرنا ایک معمول کا عمل ہے کہ پاکستان اس کا حصہ ہی نہیں ہے۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں پاکستان کو شرکت کی دعوت نہ دینے سے پاکستان کو ایک دھچکہ پہنچایا گیا ہے۔ کیوں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں ان دنوں زیادہ گرمجوشی نہیں ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے میڈیا کی طرف سے بھجوائے جانے والے سوالات پر جواب میں کہا کہ پاکستان نے برکس اجلاسوں کی کامیاب میزبانی پر چین کو مبارکباد پیش کی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سال ایک "عالمی ترقی پر اعلیٰ سطحی ڈائیلاگ" برکس ضمنی تقریب کے طور پر منعقد کیا گیا تھا جس میں متعدد ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ نان ممبرزکو دعوت دینے سمیت برکس ممبران کے ساتھ مشاورت کے بعد تمام فیصلے کیے جاتے ہیں ۔ ہمیں افسوس ہے کہ ایک رکن نے پاکستان کی شرکت کو روک دیا۔
ترجمان نے کہا کہ ہم ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے فروغ میں چین کے کردار کو سراہتے ہیں۔ چین کے ساتھ مل کر پاکستان عالمی امن، مشترکہ خوشحالی اور جامع ترقی کے لیے ایک مضبوط آواز رہا ہے۔
پاکستانی دفترخارجہ کے اس بیان پر سابق وزیر انسانی حقوق اور پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مصر و ایران سمیت17ترقی پذیرممالک کو اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں مدعو کیا گیا مگر پاکستان کو نہیں بلایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ محض تین ماہ سے بھی کم مدت میں امپورٹڈ حکومت نے پاکستان کواس کےکلیدی اسٹرٹیجک شراکت دارسےجدا کردیاہے۔ کیا یہ بھی تبدیلی حکومت کی سازش کاحصہ ہے؟
سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برکس میں تو پاکستان ہے ہی نہیں۔ آج تک ایسا ہوا ہی نہیں جب ہم اس کا حصہ نہیں ہیں تو ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ نان ممبرز کو بطور مبصر بلایا جاتا ہے اور اگر بھارت یا کوئی رُکن ملک کسی ملک کو بطور مبصر بلانے پر اعتراض کرے تو پھر باقی رُکن ممالک اس کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئج (نمل) یونیورسٹی کے ڈاکٹر قمر چیمہ اس بات سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سائیڈ لائن اجلاس میں شرکت کے لیے چین اپنا اثرورسوخ استعمال کرسکتا تھا لیکن چین کی طرف سے پاکستان کو ایک جھٹکا دیا گیا ہے کیونکہ چینی حکام پاکستان سے خوش نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قمر چیمہ کا کہنا تھا کہ یہ ہائی لیول ڈائیلاگ آن گلوبل ڈویلپمنٹ ہے۔اقوامِ متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لہذٰا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو کیوں نہیں بلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مدعو نہ کرنے کے حوالے سے مختلف وجوہات پیش کی جارہی ہیں جن میں سے پہلی بات جو پاکستانی دفترِ خارجہ نے کہا کہ برکس ممبرکے اعتراض کی وجہ سے پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا۔
لیکن دوسری بات یہ ہے کہ چینی حکام پاکستان سے ناخوش ہیں، حالیہ دنوں میں پاکستان کی معاشی ایڈوائزری کمیٹی نے کہا چین کی طرف سے سی پیک فنڈنگ پر سوال اٹھایا پھر سی پیک عملی طور پر روک دیا اور تمام پراجیکٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کو دوبارہ شامل کرلے گا لیکن اس کانفرنس میں شامل نہ کرکے پاکستان پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے۔ پاکستان کو دور نہیں رکھا جا سکتا۔
پاکستان دفتر خارجہ کے کردار کے حوالے سے قمر چیمہ کا کہنا تھا کہ کچھ دن پہلے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے۔ چین میں پاکستانی سفارت خانے کا کام تھا کہ اس کانفرنس کے حوالے سے تیاری کرتے اور پاکستانی وفد کی شمولیت کو یقینی بناتے، پاکستانی وزیراعظم بھی کہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل چین سے منسلک ہے۔