رسائی کے لنکس

بھارت: اپوزیشن رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ؛ 'بی جے پی میں ہیں تو اچھی نیند آ رہی ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن(سی بی آئی) اور انسدادِ منی لانڈرنگ کے ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) نے حالیہ دنوں میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات تیز کر دی ہیں۔

بدعنوانی کے الزام میں دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی گرفتاری کے بعد حزبِ اختلاف کے متعدد رہنماؤں سے مختلف معاملات میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے جن سیاست دانوں سے پوچھ گچھ کی گئی ان میں بہار کے سابق وزیرِ اعلیٰ لالو پرساد یادو، ان کی اہلیہ اور سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی، ان کے بیٹے اور موجودہ نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو، کرناٹک کے کانگریس رہنما شیو کمار اور ریاست تیلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راو کی بیٹی اور رکن اسمبلی کے کویتا قابلِ ذکر ہیں۔

سیاست دانوں سمیت ایسے تاجروں سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی مالی معاونت کرتے ہیں۔

حزبِ اختلاف کی آٹھ جماعتوں نے پانچ مارچ کو وزیرِ اعظم نریند رمودی کے نام ایک مکتوب میں الزام عائد کیا تھا کہ حکومت اختیارات کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ای ڈی اور سی بی آئی کے ذریعے اپوزیشن رہنماؤں کو ہدف بنا رہی ہے تاکہ انہیں بدنام کیا جا سکے۔

اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے اپنے اقدامات سے جمہوریت کو آمریت میں بدل دیا ہے اور انتخابات سے قبل مخالفین کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔

بھارت کی نو ریاستوں میں رواں برس اسمبلی انتخابات ہونا ہیں جب کہ آئندہ برس پارلیمانی انتخابات شیڈول ہیں۔

حزبِ اختلاف نے الزام لگایا ہے کہ 2014 کے بعد اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے اندراج، چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔

اخبار 'انڈین ایکسپریس' کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 کے بعد ای ڈی اور سی بی آئی نے جو کارروائیاں کی ہیں ان میں سے 95 فی صد اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ہیں۔

'بی جے پی میں ہیں تو اچھی نیند آ رہی ہے'

رپورٹ کے مطابق لالو پرساد یادو، سنجے راوت، اعظم خان، نواب ملک، انل دیشمکھ اور ابھیشیک بنرجی کے خلاف کارروائیوں سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی ایجنسیاں حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں جب کہ وہ رہنما جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ان کے خلاف کارروائیاں بند ہو گئی ہیں۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما، ٹی ایم سی کے سابق لیڈر سویندو ادھیکاری اور مکل شرما اور مہاراشٹرا کے رہنما نرائن رانے کے بی جے پی میں شامل ہوتے ہیں ان کی خلاف تحقیقات روک دی گئی ہیں۔

ریاست مہاراشٹرا کے ایک رہنما ہرش وردھن پاٹل نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ بی جے پی میں ہونے کی وجہ سے انہیں اچھی نیند آرہی ہے۔

سابق مرکزی وزیر اور رکنِ پارلیمان کپل سبل نے سی بی آئی اور ای ڈی سے سوال کیا کہ وہ صرف انہی ریاستوں میں کیوں جاتی ہیں جہاں اپوزیشن کی حکومت ہے؟ کیا صرف اپوزیشن رہنما ہی بدعنوان ہیں اور بی جے پی کے رہنما پاک صاف ہیں؟

کپل سبل اور راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان منوج جھا نے بھی الگ الگ بیانات میں حکومت پر مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال کا الزام لگایا ہے۔

سینئر تجزیہ کار ونود اگنی ہوتری کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارروائیوں کا بظاہر مقصد اپوزیشن رہنماؤں کو انتخابات سے قبل الجھانا، انہیں بدعنوان قرار دے کر عوام میں بدنام کرنا اور ان کے وسائل کو محدود کرنا ہے تاکہ وہ انتخابات نہ لڑ سکیں۔

تجزیہ کار ابھے کمار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جمہوری ملک میں ادارے آزاد ہوتے ہیں اور وہ حکومت کی مداخلت اور دباؤ کے بغیر اپنا کام کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت نے تمام آئینی اداروں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ اداروں کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لیے کر رہی ہے۔

ان کےبقول، "حکومت اپوزیشن لیڈروں کو خوف زدہ کر رہی ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو آپ کو تحفظ دیا جائے گا ورنہ مخالفت پر جیل جانا پڑے گا۔ "

ابھے کمار کے خیال میں موجودہ حکومت کو ان اقدامات سے عارضی فائدہ تو ملے گا لیکن مستقبل میں جمہوریت کے لیے یہ نقصان دہ ہو گا۔ اگر اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آگئیں تو موجودہ حکمرانوں کے خلاف انتقامی کارروائی شروع ہو سکتی ہے اور یہ عمل جمہوری نظام کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔

بی جے پی حکومت اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارروائیوں میں حکومت کے ملوث ہونے کی تردید کرتی ہے۔

بی جے پی کے سینئر رہنما آلوک وتس کہتے ہیں حکومت کے ادارے آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا حکومتی دباؤ نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے بدعنوانی کی ہے وفاقی تحقیقاتی ادارے ان کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ اگر بی جے پی کا کوئی سیاست داں بدعنوانی میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔

بی جے پی کی سیاست پر دہلی کے لوگ کیا رائے رکھتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:17 0:00

بی جے پی نے مختلف ریاستوں میں پریس کانفرنس کرکے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے الزامات کا جواب دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے گزشتہ ہفتےاور سینئر بی جے پی رہنما منوج تیواری نے گزشتہ جمعرات کو نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرکے الزامات کی تردید کی تھی۔

انوراگ ٹھاکر نے حزب اختلاف کے رہنماوں کو 'بدعنوانوں کا گٹھ جوڑ'قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنے غلط کاموں کی پردہ پوشی کے لیے حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کے رکن اسمبلی مڈال ویرو پکشپا کے گھر سے انسدادِ بدعنوانی کے ادارے 'لوک آیوکت' نے دو مارچ کو آٹھ کروڑ روپے برآمد کیے تھے اور ان کے بیٹے پراش ناتھ مڈال کو ان کے دفتر میں 40 لاکھ روپے بطور رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا۔ مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔

اس معاملے پر بی جے پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔البتہ مڈال ویروپکشپا کا کہنا ہے کہ یہ ان کے خلاف ایک سازش ہے۔

دریں اثنا تیلنگانہ کی حکمرا ں جماعت بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کی جانب سے اتوار کو حیدرآباد شہر میں وزیر داخلہ امت شاہ کا استقبال 'واشنگ پاوڈر نرما' کے اشتہار والی ہورڈنگس سے کیا گیا جن میں بی جے پی کے متعدد سیاست دانوں کے چہرے استعمال کیے گئے۔ ان ہورڈنگس پر تحریر تھا کہ "بی جے پی میں جاتے ہی ان کے سب داغ دھل گئے۔"

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG