سری لنکا کے صدر گوتابایا راجا پکسے نے ملک میں جاری سیاسی بے یقینی ختم کرنے اور معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے نئے وزیرِ اعظم رانل وکرمے سنگھے کے نام کی منظوری دے دی ہے۔
نئے وزیرِ اعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے البتہ سری لنکا کی اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ سری لنکن ذرائع ابلاغ کے مطابق نئے وزیرِ اعظم رانل وکرمے سنگھے جلد حکومت سازی اور معاشی بحران حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سری لنکا 1948 میں آزادی کے بعد اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا کررہا ہے۔ ملک کی ابتر معاشی صورتِ حال سے جنم لینے والی احتجاجی لہر پیر کو پُر تشدد ہوگئی تھی جس کے بعد کئی دہائیوں سے ملک پر حکمرانی کرنے والے راجا پکسے خاندان سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
اپنے بڑے بھائی مہندا راجا پکسے کے وزارتِ عظمی سےمستعفی ہونے کے بعد صدر گوتابایا راجا پکسے مظاہرین کے مطالبے کے باوجود عہدہ چھوڑنے سے انکار کرچکے ہیں۔گزشتہ روز قوم سے خطاب میں صدر نے ایک ہفتے کے اندر ملک میں نئی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں اپوزیشن کے مطالبے کے مطابق انتظامی امور سے متعلق صدارتی اختیارات میں کمی کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
سری لنکا کے آئین کے مطابق وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کو صدر نامزد کرتا ہے۔ صدر گوتابایا کی جانب سے حکومت سازی کے اعلان کے بعد یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے سربراہ رانل وکرمے سنگھے نے ان سے بدھ کو طویل مذاکرات کیے تھے جس کے بعد ان کے نام کی منظوری دی گئی۔
یونائیٹڈ نیشنل پارٹی (یو این پی) کے سربراہ 73 سالہ وکرمے سنگھے 1977 میں پہلی بار پارلیمنٹ کے رکن بنے تھے۔ قبل ازیں وہ پانچ مرتبہ وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 1993 میں پہلی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔لیکن اس وقت وہ 225 رکنی پارلیمان میں اپنی جماعت کے واحد نمائندے ہیں۔
مہندا راجا پکسے کے وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے کے بعد صدر نے اپوزیشن جماعتوں کی ایک اتحادی حکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ وکرمے سنگھے کی تقرری کے بعد راجاپکسے کی جماعت سری لنکا پوڈوجنا پیرمونا(ایس ایل پی پی) اور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ایس جے بی کا ایک دھڑا اسمبلی میں ان کی حمایت کرے گا۔
گزشتہ انتخابات میں ان کی جماعت صرف ایک نشست ہی حاصل کر پائی تھی تاہم مبصرین کے مطابق ایک کہنہ مشق قانون ساز کے طور پر ان حالات میں ان کا وزیرِ اعظم بننا ان کی زبردست واپسی ہے۔
قبل ازیں سری لنکا میں اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اور بودھ مذہبی رہنماؤں نے بھی عبوری حکومت کے قیام کے بجائے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ سری لنکا کی موجودہ پارلیمنٹ 2019 کے عام انتخابات میں منتخب ہوئی تھی جس کی مدت میں 18 ماہ کا عرصہ باقی ہے۔
دارالحکومت سے شہریوں کی نقل مکانی
سری لنکا میں جاری معاشی و سیاسی بحران کے بعد بے یقینی کی صورتِ حال بدستور برقرار ہے اور کرفیو میں نرمی کے بعد کئی شہریوں نے دارالحکومت سے اپنے آبائی علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کردی ہے۔
وزیرِ اعظم کے استعفی کے بعد ان کے رہائش گاہ پر مظاہرین کے حملے اور کئی مقامات پر تصادم کے بعد امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج کو طلب کرلیا گیا ہے۔
سری لنکا کے سرکاری نیوز پورٹل کے مطابق وزراتِ دفاع نے مختلف جتھوں کی جانب سے گاڑیوں کی تلاشی، املاک کو نقصان پہنچانے کی کوششیں اور دیگر پرُتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضروری ہدایات جاری کردی ہیں۔
سری لنکا کے انگریزی اخبار ’ڈیلی مرر‘ کے مطابق دارالحکومت کولمبو کی ایک عدالت نے پیر کے دن پُر امن مظاہرین پر حملہ کرنے کے الزام میں مستعفی ہونے والے وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے سمیت 16 افراد کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
سیاسی بے یقینی
ابتدائی طور پر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت سماگی جنا بالا ویگیا (ایس جے بی) نے حکومت میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا تاہم جمعرات کو پارٹی کے سربراہ سجیت پریماداسا نے مقررہ وقت میں مستعفی ہونے کی شرط پر حکومت بنانے کے اعلان کردیا ۔
البتہ وزارتِ عظمی کے لیے وکرمے سنگھے کا نام سامنے آنے کے بعد ایس جے بی نے آئندہ کا لائحہ عمل جلد متعین کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
وکرمے سنگھے کو وزیرِ اعظم بنانے کے فیصلے کو گوتابایا راجاپکسے کی جانب سے جلد از جلد ملک میں جاری معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کا پیکج حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
اس سے قبل سری لنکا کے مرکزی بینک کے سربراہ نے بھی گزشتہ روز ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ اگر ایک سے دو ہفتوں کے اندر حکومت سازی نہیں کی گئی تو ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر ختم ہوجائیں گے اور معیشت پوری طرح تباہ ہوجائے گی۔ کئی علاقوں میں ایندھن کے خاتمے کے ساتھ 12 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوجائے گی۔
سری لنکا کے مذہبی رہنماؤں اور بعض اپوزیشن جماعتوں نے صدر گوتابایا راجا پکسے کی جانب سے وکرمے سنگھے کو وزیرِ اعظم بنانے کی مخالفت کی ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے رہنما انورا دسانائکے کا کہنا ہے کہ صدر نے اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے وکرمے سنگھے کو وزیر اعظم بنایا ہے۔ اس سے قبل 2015 سے 2019 کے دوران وزیرِ خارجہ رہنے والے وکرمے سنگھے پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کرپشن کے کیسز میں راجاپکسے خاندان کو تحفظ دینے کے لیے کردار ادا کیا تھا۔
راجا پکسے خاندان کا اقتدار
مہندا راجا پکسے 2020 کا الیکشن جیتنے کے بعد وزیرِ اعظم بنے تھے جب کہ ان کے بھائی گوتابایا راجا پکسے 2019 میں ملک کے صدر بن چکے تھے۔
اس سے قبل مہندا راجا پکسے 2005 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے اور 2015 تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔ اس دوران ان کے بھائی اور دیگر قریبی عزیز مختلف اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ان کا خاندان کئی دہائیوں سے سری لنکا میں برسرِ اقتدار ہے۔
راجاپکسے خاندان سےمتعلق مبینہ کرپشن کے الزامات اور اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 2015 میں مہندا راجاپکسے کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ان کی کابینہ کے سابق وزیر میتھر پالا سری سینا صدر منتخب ہوئے۔ میتھر پالا سری سینا نے منتخب ہونے کے بعد ملک کے آئین میں دو سے زیادہ مرتبہ صدر بننے پر پابندی شامل کر دی۔
سن 2019 میں سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کے موقع پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کے بعد ملک میں قوم پرستی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں راجا پکسے خاندان ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوا۔
دو مرتبہ سے زائد صدر منتخب ہونے کی پابندی کی وجہ سے اس بار گوتابایا راجاپکسے نے صدارتی الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت حاصل کرکے کام یاب ہوئے۔
ان کی جماعت ’پودوجانا پرامونا‘ پارٹی نے حزب اختلاف کا صفایا کردیا اور اگلے ہی برس گوتابایا کے بھائی مہندا راجا پکسے پارلیمنٹ کے انتخابات کے نتیجے میں وزیرِ اعظم بن گئے۔
معاشی پالیسیوں میں ناکامی
سال 2019 میں سری لنکا میں صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر گوتابایا راجا پکسے نے بڑے پیمانے پر ٹیکس کٹوتیوں کا اعلان کیا تھا۔ ان اقدامات کے تحت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو تقریباً نصف کر دیا گیا تھا۔
’رائٹرز‘ کے مطابق ٹیکس میں اتنی بڑی کمی کا یہ فیصلہ بہت اچانک تھا اور مرکزی بینک کے بعض عہدے داروں کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا تھا۔
حکومت کے مطابق ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے یہ ٹیکس کٹوتی کی گئی تھی۔ 2009 میں تامل علیحدگی پسندوں سے طویل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد موجودہ صدر کے بھائی اور سابق وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے نے بھی ٹیکسوں میں کٹوتی کی تھی۔
حکومت کے ٹیکس کٹوتی سے متعلق فیصلوں کے بارے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ بیرونی ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے باوجود ٹیکس میں کمی کرنے سے ملکی آمدن متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ 2019 میں حکومت نے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا وہ بھی اس فیصلے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں رہا۔
ٹیکس میں کمی کے اس فیصلے کے کچھ ہی عرصے بعد کرونا کی عالمی وبا پھیل گئی جس کی وجہ سے دنیا بھر میں سفری پابندیاں عائد ہونے لگیں اور سیاحت پر انحصار کرنے والے سری لنکا کی معیشت اس سے بری طرح متاثر ہوئی۔
ملک میں زرمبادلہ کی شدید قلت کے باعث درآمدی ادائیگیاں نہ ہونے سے خوراک اور ایندھن کی قلت پیدا ہوئی اور اس مسئلے پرحکومت کے خلاف رواں برس مارچ سے شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوا ۔
عوامی احتجاج کے باعث رفتہ رفتہ راجا پکسے خاندان کی گرفت حکومت پر کمزور پڑ رہی ہے۔عوامی دباؤ کی وجہ سے گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم کے بھائی باسل راجا پکسے کو وزارتِ خزانہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا جب کہ پیر کو خود وزیرِ اعظم نے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔
مظاہرین صدر گوتابایا راجا پکسے کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں تاہم ماضی میں وہ ان مطالبات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔