رسائی کے لنکس

ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر منگوانے کی اجازت: کیا روپے کی قدر بہتر ہو جائے گی؟


حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں کو بیرون ملک سے کیش ڈالرز منگوانے کی اجازت دینے کے بعد ملک میں روپے کی قدر میں اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے باوجود روپے کی قدر میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، تاہم اس حکومتی اقدام سے روپے کی قدر میں بہتری کا امکان ہے۔

آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے بعد درآمدات پر پابندیاں جزوی طور پر ہٹائے جانے کے نتیجے میں مسلسل آٹھ سیشنز تک امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا۔

لیکن گزشتہ دو روز سے ایکسچینج مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر میں پھر سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور جمعرات کو بھی انٹر بینک اور فری مارکیٹ دونوں ہی میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بڑھی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ سرکلر کے مطابق ملک بھر کی تمام ایکسچینج کمپنیز کو ملک میں نقد ڈالر لانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

ایکسچینج کمپنیز کرنسی ایکسپورٹ کی مد میں 50 فی صد نقد ڈالر منگوا سکتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے یہ اجازت 31 دسمبر 2023 تک دی ہے۔

آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد حکومتی ہدایات کی روشنی میں کمرشل بینکوں نے فنڈ کی شرائط کے تحت کئی مہینوں سے رکی ہوئی ایل سیز کھول دیں جس سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا۔

دوسری جانب فری مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کے ریٹ میں فرق دوبارہ بڑھ رہا تھا۔ لیکن ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر منگوانے کی اجازت ملنے سے یہ رحجان کسی حد تک کم ہوتا دکھائی دیا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے روپے کو اس کی حقیقی قدر حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی کرنسی اب بھی زیادہ ڈی ویلیو ہے۔

اُن کے بقول ایکسچیبج کمپنیز کا ڈالر امپورٹ کرنا امریکی ڈالر کی قلت اور ڈالر کے ریٹ کے فرق کو کم کرنے میں مدد دے گا۔

ملک بوستان کا مزید کہنا تھا کہ ایکسچینج کمپنیوں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا اور کئی بار اسٹیٹ بینک سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا۔

'برآمدات بڑھائے بغیر مہنگائی میں کمی کی توقع رکھنا غلط ہے'

ایکسچینج مارکیٹ کے متعدد تجزیہ کار ملک بوستان سے اتفاق نہیں کرتے۔

تجزیہ کار شاہ میر زیدی کا خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اس اقدام سے وقتی فائدہ تو ہو گا لیکن طلب اور رسد کے فرق کو مستقل طور پر حل نہیں کیا جا سکتا۔

شاہ میر زیدی کا کہنا تھا کہ طویل مدتی حل کے لیے پاکستان کو اپنی برآمدات، ترسیلاتِ زر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی کمی میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ صرف مصنوعی اقدامات سے کوئی خاص اور دیرپا اثر نہیں ہو گا۔

پاکستان میں ملک میں مہنگائی کی شرح ایک سال میں 12 فی صد سے بڑھ کر 29 فی صد تک جاپہنچی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کی برآمدات میں چار ارب ڈالر اور ترسیلات زر میں بھی 4.2 ارب ڈالر کی بڑی کمی دیکھی گئی تھی جب کہ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی 24 فی صد کمی کے ساتھ 1 ارب 45 کروڑ ڈالر رہی۔

پاکستان کی کرنسی دنیا میں گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے اپنی قدر کھونے والی کرنسیوں میں سے ایک بن چکی ہے۔

جون 2022 میں ایک امریکی ڈالر 210 روپے 11 پیسے کا تھا جو اب 286 پاکستانی روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یعنی ایک سال کے دوران پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 36 فی صد قدر کھو چکا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پاکستانی روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو آئی ایم ایف کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں ہونے والے اسٹینڈ بائی معاہدے میں بھی پاکستان نے فنڈ کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ روپے کو مصنوعی استحکام دے کر مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ کی جانب واپس آئے گا۔

دوسری جانب جمعرات کو پاکستانی روپے میں مزید اضافہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب یہ خبر سامنے آئی کہ چینی بینک نے دو برسوں کے لیے پاکستان کو 2.4 ارب ڈالر کا بڑا قرضہ رول اوور کر دیا ہے۔ اب پاکستان کو قرض پر صرف سود ہی کی رقم ادا کرنی ہو گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی طرف سے یہ سہولت پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مزید بڑھانے کا باعث بنے گی جو ابھی تک صرف دو ماہ کی مدت کے درآمدی بل کی ادائیگی کے لیے کافی ہیں۔

ملک کو موجودہ مالی سال میں تقریباً 23 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں ادا کرنی ہیں جن کے لیے مزید اس طرح کے رول اوورز اور قرضوں کی ری شیڈولنگ کی سخت ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ اسٹینڈ بائی معاہدے سے پاکستان کے لیے نئی فنڈنگ کے دروازے کھل گئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG