جس وقت دنیا بھر کی چھوٹی بڑی کرنسیز ڈالر کےمقابلے میں ڈھیر ہورہی ہیں پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری کو بظاہر ملک میں نئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی آمد سے جوڑا جارہا ہے تاہم ماہرین اس سے متفق نہیں ہیں اور ان کے نزدیک روپے کی قدر میں اضافے کو برقرار رکھنا اس بار اسحاق ڈار کے لیے بھی آسان نہیں ہوگا۔
گزشتہ چند روز میں دنیا بھر کی کرنسیز میں ایک ہیجانی کیفیت نظر آئی۔ برطانوی پاونڈ کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک ہی روز میں 4 فی صد کمی آئی جب کہ جمعے کے روز بھی اس میں ڈیڑھ فی صد گراوٹ دیکھی گئی تھی۔ اسی طرح چینی یوآن ہو یا یورو، جاپانی ین ہو یا پھر آسٹریلین ڈالر یا سوئس فرانک تمام ہی کرنسیز کی قدر کم ہوئی۔
امریکہ کے سینٹرل بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کو ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی بنیادی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن پاکستانی روپے کی بات کی جائے تو اس میں نہ صرف پیر بلکہ منگل کو بھی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
صرف تین مستقل سیشنز میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں 5 روپے 74 پیسے اضافہ دیکھا گیاہے۔ جب کہ منگل کو کاروبار کے اختتام پر انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر 233 روپے 91 پیسے میں فروخت ہوا۔
پچھلے چند ماہ میں پاکستانی روپیہ دنیا کی کمزور کرنسیزمیں شمار ہورہا تھا۔ لیکن اب عالمی رجحان کے برخلاف روپے کی بڑھتی ہوئی قدر سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنیادی معاشی اصول کے تحت کیا واقعی پاکستانی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کوئی بڑا اضافہ ہوا ہے جس سے پاکستانی کرنسی کی قدر میں واضح بہتری آئی ہے؟
اس سوال پر مختلف تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ روپے کی قدر میں اضافہ معاشی اشاریوں میں بہتری سے نہیں بلکہ خبروں اور مارکیٹ کوملنے والے بعض اشاروں سے ممکن ہوا ہے۔
’ذخیرہ اندوز ڈالر بیچنے میں جلدی کررہے ہیں‘
معاشی امور کے تجزیہ کار عبداللہ عمر کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستانی معیشت جس صورتِ حال سے گزر رہی ہے اس میں امریکی ڈالر کی ذخیرہ اندوزی ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ فری لانسرز اور ایکسپورٹرز نے ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کے سبب اسے ذخیرہ کرکے رکھا ہوا ہے۔ لیکن سابق وزیرِ خزانہ کے دورباہ عہدہ سنبھالنے کی خبروں کے بعد ذخیرہ کرنے والے مارکیٹ میں ڈالر بیچنے کے لیے جلد بازی کررہے ہیں۔
ان کے بقول، اسحاق ڈار ماضی میں روپے کی قیمت مصنوعی طور پر کنٹرول کرتے رہے ہیں اور اس میں ملک کے قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر بھی استعمال کیےگئے۔
عبداللہ عمر کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی واپسی کی خبریں آتے ہی جن لوگوں ںے ڈالر ذخیرہ کرکے رکھے ہوئے تھے انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ ایسے انتظامی اقدامات کیے جائیں گے جن سے روپے کی قدر تین سے چار فی صد بڑھ جائے گی۔ اس لیے انہوں نے اسی میں بہتری سمجھی کہ ڈالر ابھی فروخت کرکے کچھ منافع کمالیا جائے۔
"ڈالر آنے میں وقت لگے گا"
عبداللہ عمر کے مطابق دوسری جانب ایسے اشارے کہیں سے نہیں مل رہے کہ پاکستان کی معیشت میں کوئی بنیادی بہتری آئی ہو جس سے ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کوئی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہو جس کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی کی قدر بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے پیرس کلب میں شامل ممالک سے 10 ارب ڈالر کے قرضے کی ادائیگی میں ریلیف کی کوشش کی جارہی ہے البتہ یہ ریلیف قرضے ری شیڈول ہونے کی صورت ہی میں ملے گا اور ابھی یہ معاملہ زیر التواء ہے۔
ان کے مطابق اسی طرح آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے اگلے ماہ اجلاس ہونا ہے اور پاکستانی حکام یہ توقع کر رہے ہیں کہ سیلاب کی صورتِ حال کے باعث عالمی مالیاتی ادارہ دو اقساط ایک ساتھ دینے کے لیے راضی ہوجائے گا۔ ایسا ہوا تو پاکستان کو 1.4 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے جبکہ ورلڈ بینک حکام کا بھی کہنا ہے کہ وہ اس سال کے اواخر تک پاکستان کو2 ارب ڈالر فراہم کرسکتے ہیں۔
عبداللہ عمر کے مطابق ان تمام کوششوں میں کامیابی کے بعد ہی ڈالر کا ان فلو آنے والے کچھ ماہ میں شاید بہتر ہوجائے گا لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ مستقبل میں ہونا ہے اور اس کے لیے وقت بھی درکار ہوگا۔
’ڈالر اوور ویلیو ہے‘
عبداللہ عمر نے مزید بتایا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی کرنسیز کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ویسے ہی کم ہورہی ہے۔یہ سب کچھ بیرونی سرمایہ کار بھی بہت غور سے دیکھتے ہیں۔ انہیں دیوار پر لکھا ہوا سب نظر آرہا ہوتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہناہے کہ فی ڈالر کی قیمت 240 روپے سے نیچے آنا شروع ہوئی ہے۔ یقیناً ڈالر کی یہ قدر حقیقت پر مبنی نہیں تھی۔ یعنی ڈالر اپنی اصل قیمت کے قریب جارہا ہے کیوں کہ لوگوں کو خدشہ ہے کہ ایسے انتظامی اقدامات اور پھر کچھ تدابیر سے اس کی قیمت میں عارضی طور پر مزید کمی متوقع ہے۔ لیکن وقتی طور پر یہ سب کچھ ہونے کے بعد ظاہر ہے کہ روپے اور امریکی ڈالر کی قیمت کا تعین طلب و رسد کے فرق کی بنیاد ہی پر ہوگا۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے میں اب بھی اوور ویلیو ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مارکیٹ میں ہونے والی قیاس آرائیاں ہیں۔ان کے خیال میں مارکیٹ میں پھیلی قیاس آرائیوں کی زیادہ ذمے داری بینکوں اور ملک کے مالیاتی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ دنوں بینک اپنی مرضی سے ڈالر کا ریٹ اوپر نیچے کررہے تھے ۔ اسٹاک مارکیٹ کی طرح ایکسچینج مارکیٹ میں بھی قیاس آرائی اور ساز باز کے ساتھ بے وجہ قیمتیں گرانے اور چڑھانے میں ان کا کردار رہا۔
ظفر پراچہ نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں بھی ایک روز میں ایسا کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی گئی جس کے بعد یہ سلسلہ وہاں رُک گیا۔ جبکہ پاکستان میں بہت شور شرابے کے بعد اسٹیٹ بینک نے اب جاکر مختلف بینکوں کو سستا ڈالر خرید کر انتہائی مہنگا فروخت کرنے پر اظہار وجوہ کا نوٹس دیا ہے۔
واضح رہے کہ 21 ستمبر کو پاکستان کی سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کو بتایا گیا تھا کہ جب ایک ڈالر کی قیمت 230 روپے تھی ، اس وقت کئی بینکوں نے درآمدات کے لیےفی ڈالر 240 روپے یا اس سے بھی زیادہ کےایل سی (لیٹر آف کریڈٹ ) جاری کیے تھے جس سے بینکوں کا منافع 100 فیصد تک جاپہنچاتھا۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں موجود ڈپٹی گونر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین نے بتایا تھا کہ مرکزی بینک نے اس سلسلے میں تحقیقات شروع کردی ہیں ، جس کی رپورٹ جلد کمیٹی کو بھی پیش کی جائیں گی۔
"روپے کی قدر میں اضافہ آسان نہیں ہوگا"
ظفر پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے نئے نامزد وزیر خزانہ اسحاق ڈار ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے کی شہرت رکھتے ہیں ۔ ان کے آنے سے ڈالر کی قیمت میں گراوٹ دیکھی گئی لیکن ایسی صورتِ حال میں دوبارہ قیاس آرائیاں کرنے والے فعال ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قیاس آرائیاں کرنے والوں نے اسحاق ڈار کی آمد کی خبر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پرگرایا ہے لیکن حقیقت میں ملکی معاشی اشاریوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بہ آسانی ڈالر کی قیمت کم نہیں کرسکیں گے۔وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں اسٹیٹ بینک کو کافی خود مختاری مل چکی ہے اورآئی ایم ایف بھی ایسے اقدامات پر اب کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔