رسائی کے لنکس

انتخابات کی تاریخ دینا کمیشن کا اختیار ہے، عدالتی فیصلے سے تنازع پیدا ہوا: چیف الیکشن کمشنر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں انتخابات کا معاملہ بدستور حل طلب ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد اب چیف الیکشن کمشنر نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کے لیے موزوں وقت کا انتخاب الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کمیشن کے اختیار پر حرف آتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے سے تنازع پیدا ہوا ۔

چیف الیکشن کمشنر کے خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن ایک آزاد اورخودمختار ادارہ ہے۔ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 90 روزمیں انتخابات آئینی تقاضا ہے۔ کسی مخصوص شق نہیں آئین کو مجموعی طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ آئین کے آرٹیکل 218(3) کو پورا وزن نہیں دیا گیا۔

خط میں شکایت کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن نےصاف شفاف انتخابات کے انعقاد کےلیےکوشش کی لیکن ان مثالی کوششوں کی معاونت نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن کی رٹ کو منظم طریقے سے چیلنج کیا گیا۔ عملی طور پر الیکشن کمیشن کے اختیار کو ختم کیا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ الیکشن میں دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جس کے بعد محکمانہ کارروائی کو ایک طرف رکھ دیا گیا۔ انتظامی افسران کو پیغام گیا کہ وہ سنگین بے ضابطگی کے باوجود فیصلوں کے پیچھے چھپ سکتے ہیں۔ یوں الیکشن کمیشن کی رٹ پر سمجھوتا کیا گیا۔

سکندرسلطان راجہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے توہین پر نوٹسز جاری کیے تو چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو جان سے مارنے کی دھمکی ملی اور اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو کہا گیا کہ ان کیسز میں فیصلہ نہ کیا جائے۔ توہین کے مرتکب افراد نے الیکشن کمیشن کی کمزور ہوتی رٹ کو بھانپ لیا تھا اور کارروائی میں پیش نہ ہوئے۔ توہین کے مرتکب افراد کے قابلِ ضمانت وارنٹ کو بھی معطل کیا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ عدالتی دباؤ کے بہت سے واقعات ہیں جہاں الیکشن کمیشن کی رٹ کو مجروح کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے ماحول میں الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کراسکتا ہے اور کیا انتظامیہ، سیاسی نمائندے اور ادارے کمیشن کو سنجیدگی سے لیں گے، کیا موجودہ حالات میں ان اداروں اور انتظامیہ کے ذریعے پنجاب، خیبر پختونخوا میں صاف شفاف انتخابات کرائے جاسکتے ہیں؟

چیف الیکشن کمشنر نے اس بارے میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چئیرمین سینٹ سے درخواست کی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57(ون) اور سیکشن 58 میں ترمیم کی جائے کہ الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا جائے۔

سیکشن 58 کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ایک بار تاریخ کے اعلان کے بعد حالات کے مطابق رد و بدل کر سکے۔

چیئرمین الیکشن کمیشن نے اسپیکراور چیئرمین سینیٹ سے درخواست کی ہے کہ ان نئی ترامیم سے الیکشن کمیشن کو ملنے والے اختیارات کے ذریعے ہی انتخابی عمل کو مزید شفاف اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نےو ائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک معمول کی کارروائی ہے جو الیکشن اصلاحات کا حصہ سمجھی جاسکتی ہے۔

انتخابی شیڈول جاری کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے یا سپریم کورٹ کا ؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:52 0:00

انہوں نے کہا کہ ماضی میں چیف الیکشن کمشنر کی مدت پانچ سال اور ممبران کی مدت تین سال کرنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے ہی پارلیمانی وزارت کو لکھا تھا، یہ خط بھی لازمی طور پر پارلیمانی وزارت کو ہی بھجوایا گیا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس خط کے ذریعے الیکشن کمیشن نے اپنی رٹ کو بہتر بنانے کے حوالے سے درخواست کی ہے ۔ یہ معمول کی قانون سازی ہے اور الیکشن ایکٹ میں تبدیلی ہے جو عام اکثریت کے ساتھ منظور کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کرانا کمیشن کی مکمل طور پر ذمہ داری ہے اور اس مقصد کے لیے انہیں ہی اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس کی تاریخ کا اعلان کریں اور حالات کے پیش نظر اگر وہ چاہیں تو اس میں رد و بدل بھی کرسکیں۔

کنوردلشاد کا کہنا تھا کہ اس قانون میں تبدیلی سے الیکشن کمیشن مضبوط ہوگا لیکن موجودہ حالات میں اس پر سیاست کی جا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG