پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ گزشتہ برس اس وقت کی حزبِ اختلاف کی قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہوگئی تھی جس کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) میں شامل سیاسی جماعتوں کی حکومت قائم ہوئی تھی۔
اگرچہ حکمران جماعت معاشی بحران اور مہنگائی کے خاتمے جیسے وعدے لے کر اقتدار میں آیا تھا لیکن گزشتہ 12 مہینوں میں پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان مسائل میں روپے کی گرتی قدر، آئے روز بڑھتی مہنگائی، امن وامان، معاشی بحران، غیر یقینی سیاسی صورتِ حال اور بیڈ گورننس جیسے مسائل سرِ فہرست ہیں۔
موجودہ اتحادی حکومت اپنی پیش رو تحریکِ انصاف کی حکومت کو ملکی مسائل کا ذمے دار قرار دیتی ہے جب کہ پی ٹی آئی کے نزدیک ان مسائل کی ذمے داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
تحریک انصاف نے پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی پر 51 صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر جاری کیا ہے۔ وائٹ پیپر کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اسرائیل کے ساتھ تجارت جیسے کئی نکات اور الزامات شامل ہیں۔
وائٹ پیپر میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں، مقدمات، زمان پارک آپریشن کی تفصیلات کے علاوہ معاشی تباہی، مہنگائی کے حوالے سے اعداد وشمار بھی شامل کیے گئے ہیں۔ نیب قوانین میں تبدیلیاں اور الیکشن التواء کیس کو بھی وائٹ پیپر کا حصہ بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب حکمران اتحاد اور خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ(ن) اِس ایک سال کو اپنے لیے سیاسی اعتبار سے کامیاب تصور کرتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے مطابق اُنہوں نے ملک کی تیزی سے گرتی ہوئی ملکی معیشت کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی اور کر رہے ہیں جسے عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے عدم استحکام کا شکار کردیا تھا۔
سیاسی مبصرین کی رائے میں پی ڈی ایم اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو ایک سال کے دوران سیاسی اعتبار سے نقصان ہوا ہے جبکہ پی ٹی آئی فائدے میں رہی ہے۔ عوام میں اتحادی حکومت کی مقبولیت کم جبکہ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
’مقبولیت کا معاملہ برعکس ہوگیا‘
تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتیں اور خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو اُنہیں اقتدار ملا ہے۔ اُن پر سے مقدمات ختم ہوئے۔ وہ حکومت میں آئے اور سیاسی اعتبار سے اپنی حکمتِ عملی بنائی اور جس مشکل میں یہ سیاسی جماعتیں تھیں اُس سے نکل آئیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے کوشش کی کہ گورننس اور ملک کی معیشت کو بہتر کیا جائے لیکن معیشت اور گورننس دونوں سنبھل نہیں سکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو ملکی معیشت گراوٹ کا شکار تھی اور وہ حالت اَب تک سنبھل نہیں سکی ہے۔ ان کے بقول سنگین ہوتے معاشی بحرانوں کی وجہ مخدوش معاشی حالات اور سیاسی صورتِ حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اِن دونوں بحرانوں سے نکل نہیں سکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب حکومت بدلی تھی اور اتحادی حکومت قائم ہوئی تھی تو اُس وقت پاکستان مسلم لیگ ن سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ مضبوط اور عوام میں مقبول سیاسی جماعت تھی۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا گراف گر رہا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ حکومت تبدیل ہونے سے یہ اُلٹ ہو گیا۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں پی ٹی آئی کی شہرت کا گراف بڑھ رہا ہے اور ن لیگ کی شہرت کا گراف گِر رہا ہے۔
’ایک سال کی بس اتنی کہانی ہے‘
سینئر صحافی مظہر عباس کی رائے میں ن لیگ نے پی ڈی ایم کے ایک سال میں کھویا زیادہ اور پایا کم ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ اور پی پی پی کے خلاف مقدمات ختم بھی ہوئے ہیں تو وہ دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔ اگر اِن سیاسی جماعتوں کے خلاف پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی تو وہ دوبارہ کیسز کھول دے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگر سیاسی جماعتوں کو اِس قدر زیادہ نقصان ہوا کہ ہے کہ وہ یہ کہہ کر نہیں نکل سکتے کہ اُنہوں نے ریاست کی وجہ سے اپنی سیاست کو قربان کیا۔ ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست تو مضبوط نظر ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ریاست کی مضبوطی کے لیےموجودہ حکومت نے کوئی کام نہیں کیا البتہ اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی نہیں ہو سکی اور خود اپنی سیاست کو نقصان پہنچایا۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی غیر مقبولیت اب مقبولیت میں تبدیل ہو گئی۔ ایک سال کی بس اتنی سی کہانی ہے۔
وزیرِ اعظم کی کارکردگی؟
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کی شہرت رکھتے تھے لیکن بطور وزیراعظم ان کی وہ صلاحیتیں سامنے نہیں آسکیں اور ایسا نہیں لگا کہ حکومتی امور پر اُن کی مکمل گرفت ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح سے شہباز شریف صوبائی حکومت میں اپنی کارکردگی دکھاتے رہے ہیں ویسی کارکردگی وفاقی حکومت میں نظر نہیں آئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اَب یہ اُن کی جانب سے آٹے کی فراہمی پہلا سیاسی قدم تھا، جس سے محسوس ہوا کہ ابھی بھی اُنہیں سیاست یاد ہے، نہیں تو یہ لگتا تھا کہ وہ سیاست بھول گئے ہیں۔ وہ ساری توجہ اپنی حکومت اور کارکردگی پر کر رہے ہیں لیکن اس میں پھر بھی بہتری نہیں آرہی۔
سہیل وڑئچ کی رائے میں حکومت سے نکلنے کے بعد پی ٹی آئی کے دور میں ہونے والی مہنگائی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر چیزیں بھی موجودہ حکومت کے ذمے لگ گئیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ جانتے ہیں اور اہلِ نظر بھی سمجھتے ہیں کہ جو بھی اَب سامنے آ رہا ہے وہ پی ٹی آئی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
اُن کے بقول پاکستان اُس صورتِ حال کے بعد سنبھل نہیں سکا جو پی ٹی آئی کی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے پھرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔اِس کے باجودہ لوگوں میں عمران خان کی پذیرائی بڑہی ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ ہر جگہ مضبوط ہو گئے ہیں، ضمن انتخابات جیتے ہیں اور آئندہ بھی اگر فوری انتخابات ہوئے تو امکان ہے کہ پی ٹی آئی جیتے گی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جب تک نواز شریف نہیں آتے ہیں اور اُن کا بیانیہ نہیں بنتا اُس وقت تک ن لیگ ایک کمزور سیاسی جماعت ہے۔
مستقبل کا منظرنامہ
کالم نویس اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ حکمران جماعت میں شامل ایک جماعت پاکستان مسلم لیگ ق تقسیم ہو گئی۔ اُن کا ایک دھڑا پی ڈی ایم کے ساتھ جبکہ دوسرا دھڑا عمران خان کے ساتھ ہے۔ جس کی مختلف وجوہ ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ق لیگ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب رہی ہے اور اُن کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ اُن کی تقسیم سے یوں لگتا ہے جیسے اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی دھڑے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اِسی طرح ایم کیو ایم 2018 سے دباؤ میں ہے۔ وہ خود کوئی فیصلے نہیں کر پاتے، اُنہیں جو کہا جاتا ہے وہ وہی کرتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کہہ چکے ہیں کہ اُنہوں 2018 میں عمران خان کے ساتھ شامل ہونے اور 2022 میں الگ ہونے کا کہا گیا تھا۔ ایسی ہی صورتحال بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی نظر آتی ہے۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ یہ وہ تمام سیاسی دھڑے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کی حکومت 2018 میں بنی اور اِنہی کی وجہ سے 2022 میں ختم ہوئی۔
اُن کے بقول بظاہر تو اسٹیبلشمنٹ سیاست سے لاتعلق ہے لیکن ایسا لگتا نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر خود کو سیاست سے باہر رکھے گی۔ آنے والے وقت مٰیں اور آئندہ انتخابات میں دیکھنا ہو گا کہ یہ تمام سیاسی جماعتیں اکثریتی ووٹ حاصل کر سکیں گی یا ختم ہو جائیں گی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان دو تہائی اکثریت حاصل کر لیتے ہیں تو ملک کی سیاست کا رخ بالکل ہی تبدیل ہو جائے گا۔ اگر مکس یا ہنگ پارلیمنٹ ہوتی ہے تو اِن تمام سیاسی جماعتوں کا وزن بڑھ جائے گا۔