کراچی —
کراچی کی رہائشی زیب النسا 13 برس کی عمر میں بیاہی گئیں، جس کے بعد سے اب تک اس کے ہاں، 7 بچوں کی پیدائش ہو چکی ہے۔
اس وقت، زینب النسا کی عمر 45 سال ہے اور وہ 'جوڑوں کے درد کی بیماری' میں مبتلا ہے۔
کم عمری میں ہی شادی اور پھر بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونے کے باعث، زینب النسا کی صحت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں، زیب النسا بتاتی ہیں کہ ’میرا میکہ پنجاب کے ایک گاوٴں میں ہے، جہاں کم عمری میں ہی بچیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ اور کم عمری میں ہی ماں بن جاتی ہیں‘۔
اُن کے بقول، ’نہ میں پڑھی لکھی تھی، نا میرا شوہر۔ جبکہ، کوئی معلومات دینے والا بھی نہیں تھا۔ اب اس عمر میں آکر پتہ چل رہا ہے کہ زیادہ بچوں کے باعث عورت کی صحت کیسے خراب ہوجاتی ہے۔ اب بس دوائیں کھاتی رہتی ہوں ٹھیک سے چل بھی نہیں پاتی‘۔
پاکستان میں ہزاروں خواتین زینب النسا جیسی ہی زندگی گزار رہی ہیں اور 40 سال کی عمر تک پہنچتے ہی کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں ، جس کی اہم وجہ ان میں اپنے ہی صحت کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔
پاکستان کے مشہور گائناکولوجسٹ اور خواتین کی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے، ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ ’دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں یہ تعداد سب سے زیادہ ساڑھے چار لاکھ ہے، جبکہ سوئیڈن میں تقریباً دو لاکھ حاملہ خواتین میں سے سالانہ ایک یا دو خواتین فوت ہو جاتی ہیں۔ ملائیشیا میں ایک لاکھ میں 8 خواتین، سری لنکا میں یہ تعداد صرف بارہ ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان دنیا میں ایٹمی طاقت کا ملک تو بن گیا ہے، مگر سالانہ 450 حاملہ خواتین کی اموات ناقابل قبول ہے‘۔
اسکے ساتھ ہی پاکستان میں سالانہ چھ لاکھ خواتین ماں بننے کے بعد کی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں جس سے ان کی زندگی سخت متاثر ہوتی ہے۔ خاندان والے علاج معالجہ کے بجائے انھیں مزاروں اور پیروں مریدوں کے پاس لے کر جاتے ہیں۔ آگاہی نہ ہونے کے باعث ان پیچیدگیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر شیرشاہ نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں خواتین کی صحت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ ماوٴں کی حمل کے دوران اموات ہیں‘۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے کہا کہ اگر بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ اور فیملی پلاننگ کے طریقے اپنائے جائیں اور آگاہی فراہم کیجائے، تو حاملہ خواتین کی اموات کو روکا جا سکتا ہے۔ ہر لڑکی اور ہر خاتون کو تعلیم دلوانا اور ان میں آگاہی پیدا کرنا، معاشرے کیلئے بھی ضروری ہے اور بذات خود خاتون کیلئے بھی۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’معاشرے کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو بیماری کا شکار ہوکر مرنے نہ دیاجائے ان میں بیماری سے پہلے ہی ایسی معاشرتی آگاہی فراہم کیجائے کہ ہر لڑکی اور خاتون اپنی اہمیت سمجھے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے رواج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جو ایک خاتون اور لڑکی کی نا صرف زندگی بلکہ صحت کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سے منسلک ڈاکٹر قیصر سجاد کے بقول، ’خواتین کی معاشرے میں بہت اہمیت ہے جس کے بغیر یہ کائنات نامکمل ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ خواتین کا ذہن صرف یہ بنا ہوا ہے کہ شادی کے بعد بچوں کی پیدائش اور تربیت اور صرف دیکھ بھال کرنی ہے، اس سب میں وہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتیں۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ خواتین کو صحت کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے، تاکہ وہ بچوں سمیت خود اپنا بھی خیال رکھ سکیں۔
ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ زیادہ بچوں کی پیدائش بھی ایک مسئلہ ہے، جس سے خواتین اپنے اپ کو بھلا دیتی ہیں۔
کراچی میں زچہ اور بچہ کی صحت کے حوالے سے، ڈاکٹر ناہید ناز کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس جو خواتین علاج کیلئے آتی ہیں ان میں سے صرف ایک یا دو فیصد ایسی ہوتی ہیں جو اپنا خیال رکھ پاتی ہیں، جبکہ باقی مائیں اپنی مصروفیات کا بہانہ کرکے اپنی شخصیت اور صحت کی نگہداشت نہیں کرتیں‘۔
اس وقت، زینب النسا کی عمر 45 سال ہے اور وہ 'جوڑوں کے درد کی بیماری' میں مبتلا ہے۔
کم عمری میں ہی شادی اور پھر بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونے کے باعث، زینب النسا کی صحت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں، زیب النسا بتاتی ہیں کہ ’میرا میکہ پنجاب کے ایک گاوٴں میں ہے، جہاں کم عمری میں ہی بچیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ اور کم عمری میں ہی ماں بن جاتی ہیں‘۔
اُن کے بقول، ’نہ میں پڑھی لکھی تھی، نا میرا شوہر۔ جبکہ، کوئی معلومات دینے والا بھی نہیں تھا۔ اب اس عمر میں آکر پتہ چل رہا ہے کہ زیادہ بچوں کے باعث عورت کی صحت کیسے خراب ہوجاتی ہے۔ اب بس دوائیں کھاتی رہتی ہوں ٹھیک سے چل بھی نہیں پاتی‘۔
پاکستان میں ہزاروں خواتین زینب النسا جیسی ہی زندگی گزار رہی ہیں اور 40 سال کی عمر تک پہنچتے ہی کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں ، جس کی اہم وجہ ان میں اپنے ہی صحت کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔
پاکستان کے مشہور گائناکولوجسٹ اور خواتین کی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے، ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ ’دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں یہ تعداد سب سے زیادہ ساڑھے چار لاکھ ہے، جبکہ سوئیڈن میں تقریباً دو لاکھ حاملہ خواتین میں سے سالانہ ایک یا دو خواتین فوت ہو جاتی ہیں۔ ملائیشیا میں ایک لاکھ میں 8 خواتین، سری لنکا میں یہ تعداد صرف بارہ ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان دنیا میں ایٹمی طاقت کا ملک تو بن گیا ہے، مگر سالانہ 450 حاملہ خواتین کی اموات ناقابل قبول ہے‘۔
اسکے ساتھ ہی پاکستان میں سالانہ چھ لاکھ خواتین ماں بننے کے بعد کی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں جس سے ان کی زندگی سخت متاثر ہوتی ہے۔ خاندان والے علاج معالجہ کے بجائے انھیں مزاروں اور پیروں مریدوں کے پاس لے کر جاتے ہیں۔ آگاہی نہ ہونے کے باعث ان پیچیدگیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر شیرشاہ نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں خواتین کی صحت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ ماوٴں کی حمل کے دوران اموات ہیں‘۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے کہا کہ اگر بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ اور فیملی پلاننگ کے طریقے اپنائے جائیں اور آگاہی فراہم کیجائے، تو حاملہ خواتین کی اموات کو روکا جا سکتا ہے۔ ہر لڑکی اور ہر خاتون کو تعلیم دلوانا اور ان میں آگاہی پیدا کرنا، معاشرے کیلئے بھی ضروری ہے اور بذات خود خاتون کیلئے بھی۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’معاشرے کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو بیماری کا شکار ہوکر مرنے نہ دیاجائے ان میں بیماری سے پہلے ہی ایسی معاشرتی آگاہی فراہم کیجائے کہ ہر لڑکی اور خاتون اپنی اہمیت سمجھے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے رواج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جو ایک خاتون اور لڑکی کی نا صرف زندگی بلکہ صحت کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سے منسلک ڈاکٹر قیصر سجاد کے بقول، ’خواتین کی معاشرے میں بہت اہمیت ہے جس کے بغیر یہ کائنات نامکمل ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ خواتین کا ذہن صرف یہ بنا ہوا ہے کہ شادی کے بعد بچوں کی پیدائش اور تربیت اور صرف دیکھ بھال کرنی ہے، اس سب میں وہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتیں۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ خواتین کو صحت کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے، تاکہ وہ بچوں سمیت خود اپنا بھی خیال رکھ سکیں۔
ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ زیادہ بچوں کی پیدائش بھی ایک مسئلہ ہے، جس سے خواتین اپنے اپ کو بھلا دیتی ہیں۔
کراچی میں زچہ اور بچہ کی صحت کے حوالے سے، ڈاکٹر ناہید ناز کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس جو خواتین علاج کیلئے آتی ہیں ان میں سے صرف ایک یا دو فیصد ایسی ہوتی ہیں جو اپنا خیال رکھ پاتی ہیں، جبکہ باقی مائیں اپنی مصروفیات کا بہانہ کرکے اپنی شخصیت اور صحت کی نگہداشت نہیں کرتیں‘۔