رسائی کے لنکس

پشاور: انسدادِ پولیو مہم کی ایک اور خاتون رضا کار قتل


خبر پختونخوا میں آئندہ ہفتے سے انسداد پولیو مہم کا آغاز ہو رہا ہے — فائل فوٹو
خبر پختونخوا میں آئندہ ہفتے سے انسداد پولیو مہم کا آغاز ہو رہا ہے — فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں نامعلوم موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے انسدادِ پولیو مہم کی خاتون رضا کار کو قتل کر دیا ہے۔

جمعرات کو پشاور کے نواحی علاقے پشتخرہ میں پیش آنے والے واقعے کو حکام نے دہشت گردی قرار دیا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ نجی ادارے فاطمہ فاؤنڈیشن کی انسدادِ پولیو مہم سے وابستہ 38 سالہ شازیہ کار میں سوار تھیں جب موٹر سائیکل سواروں نے ان پر حملہ کیا۔

حکام کے مطابق فائرنگ کے بعد ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جب کہ شازیہ کی ہلاکت موقع پر ہی ہوگئی تھی۔

ہلاک ہونے والی خاتون کے خاوند عابد حسین نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ شازیہ ان کی دوسری بیوی تھیں جبکہ ان کی شادی تین سال قبل ہوئی تھی۔ شازیہ کا ایک بیٹا بھی ہے۔

عابد حسین کے مطابق شازیہ روزانہ اپنی ذاتی گاڑی میں حیات آباد میں واقع فاطمہ فاؤنڈیشن جاتی تھیں۔ جمعرات کو جب وہ گھر سے نکلیں تو گھر سے کچھ دور موٹر سائیکل سوار افراد نے شازیہ پر فائرنگ کر دی۔

عابد حسین کے بقول شازیہ کا تعلق مالاکنڈ سے تھا جبکہ ان کے والد فوج میں رہ چکے تھے۔

خیال رہے کہ انسدادِ پولیو مہم کی خاتون اہلکار کو ایسے وقت قتل کیا گیا ہے جب چار ماہ کے تعطل کے بعد چند روز قبل ہی صوبے کے مختلف اضلاع میں انسدادِ پولیو مہم دوبارہ شروع کی گئی ہے۔

انسدادِ پولیو مہم رواں سال اپریل میں معطل کی گئی۔ واضح رہے کہ پشاور کے نواحی علاقے کے ایک اسکول میں بچوں کی حالت مبینہ طور پر خراب ہو گئی تھی اور دعوی کیا گیا تھا کہ بچوں کی حالت قطرے پینے کے بعد خراب ہوئی۔

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت میں صرف ایک روز قبل پولیو سے ایک بچی کے متاثر ہونے کے بعد صوبے میں پولیو کے متاثرہ افراد کی تعداد 45 ہو گئی ہے۔

حکام نے صوبے بھر میں پولیو سمیت مختلف امراض سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی 11 روزہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو 11 ستمبر سے شروع ہوگی۔

انسدادِ پولیو کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان کے نامزد فوکل پرسن بابر بن عطاء نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ شازیہ کا تعلق ان کے محکمے سے نہیں تھا۔ وہ نجی ادارے کے حفاظتی ٹیکہ جات کے شعبے سے وابستہ تھیں۔ انہوں نے اس واقعے پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں اس سے قبل بھی انسدادِ پولیو مہم سے وابستہ رضا کاروں اور ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

چار ماہ قبل اپریل 2019 میں بلوچستان کے پسماندہ ضلعے چمن میں انسدادِ پولیو ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون پولیو ورکر ہلاک اور ایک زخمی ہو گئی تھیں۔

XS
SM
MD
LG