واشنگٹن —
امریکہ میں قائم انسانی حقوق سے متعلق ایک سرکردہ گروپ کا کہنا ہے کہ دنیا کے وہ معاشرے جہاں لوگوں کو پریس کی مکمل آزادی حاصل ہے، وہاں ایک عشرے سے زائد عرصے سے پریس کی آزادی کی سطح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں، ’فریڈم ہاؤس‘ نے مالی کے جنگ زدہ مغربی افریقی ملک کے ساتھ ساتھ یونان میں نئے ضوابط کے عائد ہونے اور لاطینی امریکہ کے کچھ حصوں میں مجموعی طور پر انحطاط پذیرصورت حال سے لے کر میڈیا پر نئی بندشیں عائد ہونے کی نشاندہی کی ہے۔
’فریڈم آف دی پریس 2013ء‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تجزیہ کار دنیا بھر کی آمرانہ حکومتوٕں کی طرف سے آزادانہ سیاسی مکالمے پر لگائی جانے والی قدغنوں سے آگاہ ہیں۔ اِن میں، 2011ء کے ’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی دلیرانہ بغاوتیں شامل ہیں، جنھیں آمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے کچلنے کے لیے پُر تشدد کارروائیاں کی گئیں۔
’فریڈم ہاؤس ‘ کی اِس دستاویز میں سٹیزن جرنلسٹس پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جب کہ سٹیزن جرنلسٹس عام ڈگر سے ہٹ کر سماجی میڈیا کے ذرائع کو استعمال کر رہے ہیں، جِن میں مائکرو بلاگز، سوشل نیٹ ورکس اور موبائل ٹیلی فونز کا استعمال شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آمرانہ حکومتوں کی طرف سے سیاسی شورش کے دوران آزادی اظہار کا گلہ گھونٹنے والے ہتھکنڈوں میں بلاگرز کو قید کرناویب سے متعلق مواد اور ٹیکسٹ مسیجنگ کی سہولتوں کو بلاک کرنا شامل ہے۔
رپورٹ میں چین اور روس کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے جہاں مختلف نوعیت کے حربوں کے استعمال سے میڈیا کے سخت کنٹرول کو جاری رکھا جارہا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اِن ہتھکنڈوں میں ناقدین کو جیل میں ڈالنا اور ویب سائٹس کو زبردستی بند کرنا شامل ہے۔
رپورٹ میں دنیا کے آٹھ ایسے ممالک کی ایک فہرست شامل کی گئی ہے جہاںصورتِ حال بدتر ہے۔ اِن ممالک میں بلاروس، کیوبا، اکئاٹورئل گِنی، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہے۔
مغربی یورپ کو عالمی سطح پر آزادی اظہار کی اعلیٰ ترین مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012ء کے دوران یہ خطہ غیرمعمولی طور پر تنزل کا شکار رہا۔
انحطاط کی شکار اِس صورت حال کا باعث یونان اور اسپین میں اخباری صنعت کی دگرگوں حالت بتائی جاتی ہے، اور فریڈم ہاؤس کا کہنا ہے کہ ترکی میں زیرِ حراست صحافیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
امریکہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امریکی براعظم کے دیگر ممالک میں مضبوط میڈیا کارکردگی کا مظہر ہے، جب کہ رپورٹ میں اس بات پر تنقید کی گئی ہے کہ اعلیٰ سطح کے امریکی عہدے دار صحافیوںٕ کو اطلاعات تک محدود رسائی دیتے ہیں۔
رپورٹ میں برما میں ابلاغ عامہ کی صورت حال میں بہتری کو ایک نمایاں پیش رفت بتایا گیا ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں، ’فریڈم ہاؤس‘ نے مالی کے جنگ زدہ مغربی افریقی ملک کے ساتھ ساتھ یونان میں نئے ضوابط کے عائد ہونے اور لاطینی امریکہ کے کچھ حصوں میں مجموعی طور پر انحطاط پذیرصورت حال سے لے کر میڈیا پر نئی بندشیں عائد ہونے کی نشاندہی کی ہے۔
’فریڈم آف دی پریس 2013ء‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تجزیہ کار دنیا بھر کی آمرانہ حکومتوٕں کی طرف سے آزادانہ سیاسی مکالمے پر لگائی جانے والی قدغنوں سے آگاہ ہیں۔ اِن میں، 2011ء کے ’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی دلیرانہ بغاوتیں شامل ہیں، جنھیں آمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے کچلنے کے لیے پُر تشدد کارروائیاں کی گئیں۔
’فریڈم ہاؤس ‘ کی اِس دستاویز میں سٹیزن جرنلسٹس پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جب کہ سٹیزن جرنلسٹس عام ڈگر سے ہٹ کر سماجی میڈیا کے ذرائع کو استعمال کر رہے ہیں، جِن میں مائکرو بلاگز، سوشل نیٹ ورکس اور موبائل ٹیلی فونز کا استعمال شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آمرانہ حکومتوں کی طرف سے سیاسی شورش کے دوران آزادی اظہار کا گلہ گھونٹنے والے ہتھکنڈوں میں بلاگرز کو قید کرناویب سے متعلق مواد اور ٹیکسٹ مسیجنگ کی سہولتوں کو بلاک کرنا شامل ہے۔
رپورٹ میں چین اور روس کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے جہاں مختلف نوعیت کے حربوں کے استعمال سے میڈیا کے سخت کنٹرول کو جاری رکھا جارہا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اِن ہتھکنڈوں میں ناقدین کو جیل میں ڈالنا اور ویب سائٹس کو زبردستی بند کرنا شامل ہے۔
رپورٹ میں دنیا کے آٹھ ایسے ممالک کی ایک فہرست شامل کی گئی ہے جہاںصورتِ حال بدتر ہے۔ اِن ممالک میں بلاروس، کیوبا، اکئاٹورئل گِنی، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہے۔
مغربی یورپ کو عالمی سطح پر آزادی اظہار کی اعلیٰ ترین مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012ء کے دوران یہ خطہ غیرمعمولی طور پر تنزل کا شکار رہا۔
انحطاط کی شکار اِس صورت حال کا باعث یونان اور اسپین میں اخباری صنعت کی دگرگوں حالت بتائی جاتی ہے، اور فریڈم ہاؤس کا کہنا ہے کہ ترکی میں زیرِ حراست صحافیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
امریکہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امریکی براعظم کے دیگر ممالک میں مضبوط میڈیا کارکردگی کا مظہر ہے، جب کہ رپورٹ میں اس بات پر تنقید کی گئی ہے کہ اعلیٰ سطح کے امریکی عہدے دار صحافیوںٕ کو اطلاعات تک محدود رسائی دیتے ہیں۔
رپورٹ میں برما میں ابلاغ عامہ کی صورت حال میں بہتری کو ایک نمایاں پیش رفت بتایا گیا ہے۔