افتخار محمد چودھری کے چیف جسٹس بننے سے پہلے بیشتر پاکستانی نہیں جانتے تھے کہ ازخود نوٹس کیا ہوتا ہے۔ وہ آئے دن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی خبروں پر ازخود نوٹس لیتے اور میڈیا اپنی خبر کے عدالتی نوٹس کی خصوصی کوریج کرتا۔ ان ازخود نوٹسز سے معاشرے پر کیا مثبت اثرات پڑے، اس سوال کے متضاد جوابات ملتے ہیں۔
افتخار محمد چودھری کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے بھی ازخود نوٹس لینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس پر کچھ سینئر وکلا نے دبی آواز میں اعتراض شروع کیا۔ موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں یہ سلسلہ بڑھ گیا۔ انھوں نے پے در پے کئی ازخود نوٹس ایسے لیے جن پر وکلا تنظیموں اور سینئر صحافیوں کو تعجب ہوا اور انھوں نے تنقید بھی کی۔ ان میں اینکرپرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کا معاملہ بھی تھا جنھوں نے زینب قتل کیس میں بڑے بڑے دعوے کیے۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا تو وہ کوئی دعویٰ ثابت نہ کرسکے۔
گزشتہ روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے انکشاف کیا کہ انھوں نے وکلا تنظیموں اور میڈیا کے اعتراضات پر ازخود نوٹس لینا بند کردیے ہیں۔
سابق وزیر قانون اعتزاز احسن نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے کئی ایسے ازخود نوٹس لیے جو انھیں نہیں لینا چاہیے تھے۔ ایسے نوٹس پہلی یا دوسری پیشی پر نمٹانے پڑے کیونکہ حقیقت کچھ اور تھی اور اخبار میں کچھ اور آیا تھا۔ چیف جسٹس اپنے ازخود نوٹس کے اختیار سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ لیکن، ممکن ہے کہ انھوں نے اپنے لیے کچھ حدود و قیود مقرر کی ہوں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوزم بری چیز نہیں ہے۔ لیکن افتخار محمد چودھری پندرہ سولہ ججوں کو ساتھ بٹھا کر مقدمہ سنتے تھے۔ اس کے بعد اس فیصلے پر نظرثانی ہونا ناممکن ہوجاتا تھا۔ اگر چھوٹے بینچ کیس سن رہے ہوں اور لارجر بینچ کو نظرثانی کا اختیار ہو تو پھر کوئی ہرج نہیں۔
سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ ایکٹوزم اور ایگزیکٹوزم میں باریک سی لائن ہوتی ہے۔ جب ایکٹوزم بڑھ جاتا ہے تو اس کی شکل ایگزیکٹوزم کی ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو اعتراض اس پر ہوتا ہے۔ ایکٹوزم زیادہ جائے تو خیال ہوتا ہے کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے اور کوئی کام نہیں کر رہی۔ عدالت کا زیادہ متحرک ہونا الیکشن پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں توازن ہونا چاہیے اور کم سے کم مداخلت کرنی چاہیے۔
سینئر قانون دان سمجھتے ہیں کہ ازخود نوٹس اور جوڈیشل ایکٹوزم کے ضابطے طے کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام عدلیہ کو ازخود کرنا چاہیے ورنہ کسی موقع پر پارلیمان کو قانون سازی کرنا پڑے گی۔