ہزار سال سے بارش کے پانی کے قطرے ایک غار میں رس رس کر ایک ہی مقام پر جمع ہورہے ہیں اور کئی صدیوں تک گزرنے والے موسموں کی داستان محفوظ کررہے ہیں۔
بارش کے پانی کے ہر قطرے میں پائے جانے والے معدنی ذرات (منرلز)غار کے اندر جمع ہو کر چھوٹے بڑے میناروں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جنہیں 'اسٹلاگمائٹ' کہا جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے شمال مشرقی بھارت کی ریاست میگھالیہ میں کی غاروں میں ان اسٹلاگمائٹس کا جائزہ لے کر رپورٹ جاری کی ہے۔
یہ اسٹلاگمائٹ دیکھنے میں قدرت کا شاہکار لگتے ہیں لیکن جس طرح درختوں کے تنوں کی اندرونی تہوں میں کسی خطے کے موسموں کا ریکارڈ محفوط ہوتا ہے، بالکل اسی طرح معدنی ذرات سے بننے والے ان کون نما میناروں میں بھی گزری صدیوں کی انگنت برساتوں کی تاریخ چھپی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ مینار آنے والے خطرات اور مستقبل کے قحط کے بارے میں بھی کئی رازوں سے پردہ اٹھانے والے حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں۔
بھارت کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس نے ایسے اسٹلاگمائنٹس کا کیمیائی تجزیہ کیا ہے جس کے نتائج 19 ستمبر کو جاری کیے گئے ہیں۔ اس تجزیے کے نتائج سے گزشتہ ایک ہزار سال کے دوران برصغیر میں موسم گرما اور مون سون کے بارے میں اہم معلومات سامنے آئی ہیں۔
اس جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ 150 سال میں مون سون میں ہونے والی پیمائش سے اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں اس خطے کو شدید قحط سالی کا سامنا رہا ہے۔
اس جائزے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قحط اور خشک سالی نے بڑے پیمانے پرجانی نقصان کے علاوہ تاریخ کے کن اہم ادوار کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔
جائزے کے مطابق 1780 کی دہائی کے بعد کم و بیش 30 برس تک خشک سالی کا طویل دور گزرا۔ اس عرصے میں بہت کم بارشیں ہوئیں۔ یہ ٹھیک وہی دور بنتا ہے جب ہندوستان میں مغل سلطنت اور پارچہ بافی (ٹیکسٹائل) کی صنعت تیزی سے زوال کا شکار ہورہی تھی۔
اس سے قبل 1630 سے 1632 تک کے عرصے کو، جو قحط دکن کے سال بھی کہلاتے ہیں، ہندوستان کی تاریخ میں ہونے والی بدترین خشک سالی شمار کیا جاتا ہے۔ اس دور میں فصلیں تباہ ہونے سے لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں۔مغلوں نے فتح پور سیکری سے اپنا دارالحکومت ختم کردیا اور مغربی تبت میں گوگ سلطنت کا بھی خاتمہ ہوا۔
اس رپورٹ کو مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بھارت کا زراعت کے لیے مون سون پر انحصار پانی کی فراہمی کی منصوبہ بندی سے متعلق یہ جائزہ اہم اثرات کا حامل ہے۔
بھارت میں زرعی منصوبہ بندی اس لیے بھی ضروی ہے کہ آبادی کے اعتبار سے چین کے بعد دنیا کا یہ دوسرا بڑا ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق آئندہ چند برسوں میں اس کی آبادی چین سے تجاوز کرنے والی ہے۔
مون سون کی تاریخ کیوں اہم ہے؟
سائنس دان مختلف آلات کے ذریعے 1870 کی دہائی سے ہندوستان میں ہونے والی مون سون کی بارشوں کی پیمائش کررہے ہیں۔
اس دور سے اب تک ہندوستان میں علاقائی سطح پر خشک سالی کے 27 ادوار گزرے ہیں۔ ان میں صرف 1885 سے 1887 تک مسلسل تین سال انتہائی کم بارشیں ہوئیں۔
اس ریکارڈ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام طور پر برصغیر میں برسات کا موسم مستحکم رہا ہے۔ البتہ اسٹگلامائٹس سے ملنے والے ہزار سالہ ریکارڈ سے کچھ اور ہی حقائق سامنے آتے ہیں۔
ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ دو سے ڈھائی صدیوں کے دوران ہونے والی برسات سے اس خطے میں مون سون کے اندر آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں پوری تصویر واضح نہیں ہوتی۔
جائزے میں بتایا گیا ہے کہ مون سون کے تاریخی ریکارڈ کا جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے خطے میں موجود آبی وسائل کی پائیداری اور مستقبل کی پالیسیوں سے متعلق درست سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اس بارے میں عام طور پر مستقبل میں ہونے والی طویل خشک سالی کے امکانات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
اسٹلاگمائٹس میں مون سون کا ریکارڈ
ہندوستان میں مون سون میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے میگھالیہ ریاست کی چیرا پنجی غاروں میں بننے والے اسٹلاگمائٹس پر تحقیق کی گئی ہے۔
اسٹلاگمائنٹس کون نما ساختیں ہوتی ہیں جو پانی میں پائی جانے والے معدنی ذرات سے بننا شروع ہوتی ہیں۔ ان کی لمبائی اوسطاً ہر دس برس میں ایک ملی میٹر بڑھتی ہے۔ یہ عام طور پر کسی غار کے اندر بننا شروع ہوتی ہیں۔ اس لیے غار کے اوپر مٹی اور چٹانوں سے جو پانی ٹکرا کر یا رس رس کر غار میں گرتا ہے وہ اپنے ساتھ کئی کیمیائی اجزا بھی لاتا ہے۔ ان کیمیائی اجزا کا انحصار اس خطے کے جغرافیے پر ہوتا ہے۔
میگھالیہ کی غار میں بننے والے اسٹلاگمائٹس میں تھوریم نامی کیمیکل پایا گیا ہے۔ یہ دراصل یورینیم ہے جو طویل عرصے اسٹلاگمائٹس میں قید ہونے کی وجہ سے تھوریم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ کسی اسٹلاگمائٹ میں یورنیم کے تھوریم بننے کی شرح کے اعتبار سے اس کی مدت کا تعین کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اسٹلاگمائٹس میں پائے جانے والے آکسیجن مالیکیولز کی مدد سے بھی مختلف ادوار میں ہونے والی برسات کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہے۔
یہ جائزہ لینے والےماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹلاگمائٹس کی مدد سے مون سون کے مختلف ادوار اور خاص وقت میں ہونے والی خشک سالی یا غیر معمولی بارش کا تو پتا چل سکتاہے۔ لیکن اس موسمیاتی تبدیلی کے اسباب کے لیے صرف ان ذرائع سے حاصل ہونے والا ڈیٹا کافی نہیں۔
بارش کی شرح میں آنے والی تبدیلی کے اسباب جاننے کے لیے سائنس دان ایک وسیع ماڈل پر کام کررہے ہیں۔ جس میں سمندروں سے اٹھنے والے بخارات، درختوں کے تنوں اور گلیشیئرز وغیرہ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو یکجا کرکے کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہوگا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔