صدر جو بائیڈن نے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی درخواست کو ویٹو نہ کرنے پر ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
نیٹو سربراہ اجلاس کے موقع پر الگ سے ہونے والی ایک بالمشافہ ملاقات میں صدر بائیڈن نے صدر اردوان سے کہا کہ ’ میں سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے صورتحال پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ زبردست کام کر رہے ہیں‘‘۔
مترجم کے ذریعے گتتگو میں صدر اردوان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ صدر بائیڈن مستقبل کے لیے نیٹو کو مضبوط بنانے کے لیے قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یوکرین اور روس کے درمیان موجود صورتحال میں اس کا (نیٹو) ایک بڑا مثبت کردارہو گا۔
ترکی نے فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کو ویٹو کرنے کی دھمکی پر عمل کیوں نہیں کیا؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جب منگل کو فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کے سربراہ سے ملاقات کر رہے تھے، اس بات کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ دونوں ملکوں کے لیے ترکی کسی طرح کی رعایت پر آمادہ ہو گا۔ ترکی ایک عرصے سے نارڈک خطے کے دونوں ملکوں کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرتا آ رہا ہے۔
SEE ALSO: نیٹو ممالک کا نیا ’اسٹریٹجک کانسپٹ‘ چین اور روس کے اتحاد سے نمٹنے کا منصوبہانقرہ میں حکومت نے کچھ ہفتے قبل ہی بتا دیا تھا کہ نیٹو کے فوجی بلاک کے موجودہ رکن کی حیثیت سے وہ ویٹو پاور کے ذریعے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کو مسترد کر دے گا تآنکہ دنوں ملک ترکی کے مطالبات پورے نہیں کرتے۔
ترکی کا موقف تھا کہ فن لینڈ اور سویڈن ان گروپوں کے لیے نرم رویہ رکھتے ہیں جن کو وہ اپنے لیے قومی سلامتی کا خطرہ خیال کرتا ہے۔ لیکن منگل کے روز تین گھنٹوں پر محیط مذاکرات کے بعد، تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ لفظ ’ معاہدے‘ سے گریز کرتے ہوئے ایک میمورنڈم یا یادداشت پر دستخط کرتے ہوئے نظر آئے۔ عہدیداروں نے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا تاہم فن لینڈ کے صدر نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ ’ ڈیل ‘ ہو گئی ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے اس کے بیس منٹ بعد اس ’ میمورنڈم‘ کی تصدیق کر دی اور اس کی کچھ تفصیلات بھی بیان کر دیں۔
ترکی، فن لیند اور سویڈن کے میمورنڈم میں کیا ہے؟
ترکی، فن لینڈ اور سویڈن کے درمیان منگل کے روز ایک میمورنڈم پر دستخط ہوئے تھے جس میں تینوں ملکوں نے دہستگردی کے خلاف تعاون بڑھانے اور پر اتفاق کیا تھا اور دنوں نارڈک ممالک نے ترکی کے ان خدشات کو بھی دور کیا ہے کہ وہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف زیادہ کاروائیاں نہیں کر رہے۔ اس گروپ کو ترکی ، یورپیئن یونین ، امریکہ اور دیگر نے دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے ۔ اور اس میمورنڈم پر دستخطوں کے بعد دونوں نارڈک ممالک نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ یہ دہشتگرد تنظیم ہے۔
SEE ALSO: یوکرین میں جنگ کئی برس تک جاری رہ سکتی ہے: نیٹو کا انتباہفن لینڈ اور سویڈن نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ اردوان مخالف، امریکہ میں مقیم ترک عالم دین فتح اللہ گولن کی تحریک کی بھی حمایت نہیں کریں گے۔ ترکی کی حکومت گولن کو سال 2016 میں حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت اور دیگر ملکی مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
دونوں نارڈک ممالک اس معاہدے کے تحت شام کے اندر کردش پیپلز ڈیفینس یونٹ ( وائی پی جی) کے لیے اپنی حمایت ختم کر دیں گے۔ یہ گروپ شام کے اندر امریکہ کی حمایت والے سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی داعش کے خلاف لڑائی کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ سویڈن نے اتفاق کیا ہے کہ وہ ترکی پر اسلحے کی پابندی ختم کرے گا۔ یہ پابندی ترکی کی سال 2019 میں شام کے اندر ایک کاروائی کے بعد لگائی گئی تھی۔