دنیا میں انسانی نقل مکانی پر کام کرنے والےاقوام متحدہ کے ادارے نے کہا ہے کہ سن 2014 سے اب تک بہتر زندگی کی تلا ش میں نکلنے والے تارکین وطن میں سے50 ہزار لوگ پر خطر سفری راستوں میں اپنی جانیں کھو بیٹھے ہیں۔
لاپتا ہونے والے تارکین وطن پر تحقیق کرنے والے منصوبے‘ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مسنگ مائیگرنٹس پروجیکٹ‘ نے انسانی جانوں کے ضیاع کے اس المناک سنگِ میل کی تصدیق اپنی ایک نئی رپورٹ میں کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر تارکین وطن کے اپنے آبائی ممالک، دوران سفر ٹرانزٹ یا ان کی آمد کے ممالک کی جانب سے بہت کم کارروائی کی گئی۔
تحقیق کی شریک مصنف جولیا بلیک نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب ہر سال نقل مکانی کے راستوں پر ہزاروں اموات کو دستاویزی شکل دی جاتی ہے، ان سانحات کے انسداد اور ان کو حل کرنے کے لیے بہت کم اقدامات کیے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیشتر کی قومیت کے بارے میں کوئی علم نہیں
لاپتا تارکین وطن پراجیکٹ کے مطالعہ میں زندگی سے ہاتھ دھونے والے 30 ہزار سے زیادہ لوگوں کی قومیت کے بار ے میں کوئی علم نہیں ہے۔ یعنی ہجرت کے راستوں پرہلاک والوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ نامعلوم ہیں۔
اس صورت حال میں ہزاروں خاندان جواب کی تلاش میں ہیں۔
اس المیہ سے دو چار مراکش کے ایک شہری نے، جو 20 سال پہلے یورپ کی جانب جانے والے اپنے بھائی کی تلاش میں اسپین میں در بدر پھر رہے تھے، آئی او ایم کو بتایا " وقت گزر رہا ہے لیکن کوئی خبر نہیں مل رہی"۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسے لاپتا تارکین وطن جن کی قومیت کی شناخت کی جا سکی ہے ان میں سے 9 ہزار سے زیادہ کا تعلق براعظم افریقہ سے، ساڑھے چھ ہزار کا ایشیا سے اور تین ہزار کا تعلق براعظم امریکہ سے تھا۔
آئی او ایم نے نوٹ کیا ہے کہ تین سرفہرست ممالک افغانستان، شام اور میانمار ہیں جہاں سے بہت سے لوگ تشدد سے پچنے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر بیرون ملک پناہ لینے کے لیے فرار ہو رہے ہیں۔"
جان لیوا سفری میراث
سن 2014 سے اب تک ہونے والی50 ہزار اموات میں سے نصف سے زیادہ یورپ جانے والے راستوں میں ہوئیں۔ بحیرہ روم کے سفر میں25 ہزار سے زیادہ تارکین وطن مارے گئے۔
16 ہزار سے زیادہ مہاجرین یورپی سمندری راستوں میں لاپتا ہوئے جن کی باقیات کبھی بھی نہیں مل سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ کے مطابق افریقہ ترک وطن کرنے والے لوگوں کے لیے دوسرا سب سے مہلک خطہ ہے جہاں سن 2014 کے بعد سے نقل مکانی سے متعلق 9,000 سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
خطرناک راستے
جنوبی اور شمالی امریکہ کے بر اعظموں میں تقریباً سات ہزار اموات ریکارڈ کی گئیں جن میں سے 4694 امریکہ جا رہے تھے۔ سن 2014 سے اب تک صرف امریکہ اورمیکسیکو کی زمینی سرحد پر چار ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔
آئی او ایم نے ایشیا بھر میں مزید چھ ہزار دو سو اموات ریکارڈ کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، "ایشیا میں ہجرت کے راستوں پر اپنی جانیں کھونے والوں میں 11 فیصد سے زیادہ بچے ہیں، جو کسی بھی خطے کا سب سے زیادہ تناسب ہے"۔
Your browser doesn’t support HTML5
خطے میں نقل مکانی سے منسلک 717 ریکارڈ شدہ بچوں کی اموات میں سے 436 روہنگیا پناہ گزین تھے۔
مغربی ایشیا میں نقل مکانی کے راستوں پر کم از کم 1315 لوگ ہلاک ہوئے۔ ان میں سے اکثر اموات ایسے ممالک میں ہوئیں جہاں تنازعات جاری ہیں اور لاپتا ہونے والے لوگوں کی دستاویزی تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ قرن افریقہ سے آنے والے کم از کم 522 افراد یمن میں ہلاک ہوچکے ہیں جو اکثر تشدد کا شکار ہوتے ہیں ۔
ترکی کی سرحد عبور کرنے کی کوششوں کے دوران 264 شامی اموات کی تصدیق ہوئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فوری اقدامات کا مطالبہ
آئی او ایم نے زور دیا کہ " زندگی کے حق سمیت بین الاقوامی قانون کے تحت ذمہ داریوں کو ہر وقت برقرار رکھا جانا چاہیے"۔
اقوام متحدہ کی ادارے نے تلاش اور بچاؤ کے کاموں کو ترجیح دینے میں بین الاقوامی یکجہتی ، باقاعدہ اور محفوظ نقل مکانی کے راستوں کو بہتر بنانے اور پھیلانے اور اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا کہ قانون سازی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے والے لوگوں کے تحفظ کو ترجیح دے۔
اس پر زور دیتے ہوئے آئی او ایل رپورٹ کی شریک مصنفہ جولیا بلیک نے کہا کہ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر نے کی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں، بہتر زندگی کی تلاش میں نکلنے والے کسی بھی انسان کو اس طرح مرنا نہیں چاہیے۔