بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقیم ہندو برہمن فرقے کی قیادت کا کہنا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کے بعد پوری برادری خوف زدہ ہے اور اگراس کا اعتماد بحال کرنےکے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے تو کشمیر میں اس کے بڑے پیمانے پر خروج کو نہیں ٹالا جا سکے گا۔
کشمیر میں 90-1989 میں جب بھارت سے علیحدگی کے سیاسی مطالبے نے باقاعدہ مسلح مزاحمت کی شکل اختیار کی تو برہمن ہندوؤں نے, جو عرفِ عام میں کشمیری پنڈت کہلاتے ہیں، تشدد سے بچنے کے لیے نقل مکانی شروع کر دی تھی۔
بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات بالخصوص ٹارگٹ کلنگ سے پیدا شدہ خوف و ہراس سے چند ماہ میں کشمیری پنڈتوں کی بڑی تعداد اپنا گھر بار چھوڑ کر جموں اور دہلی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے رہنے لگے ہیں۔تاہم چند ہزار پنڈتوں نے وادی ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ آبائی گھروں میں رہ رہے ہیں۔ ان میں رتن ژکو بھی شامل ہیں۔
سرینگر میں گنپت یار کے 55 سالہ مکین رتن ژکو اسی علاقے میں رہتے ہیں جہاں 32 سال پہلے کشمیری پنڈتوں کی بڑی آبادی مقیم تھی البتہ اب ان کے چند خاندان ہی رہ رہے ہیں، جو کشمیری پنڈت یہاں سے ہجرت کر گئے تھے اُن کے مکان یا تو مسلمانوں نے خرید لیے یا خالی پڑے ہیں اور بیشتر کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے۔
رتن ژکو گنپت یارمیں دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر واقع ہندو مت کے بھگوان گنیش سے منسوب مندر میں ہر اتوار کو پوجا کرنے آتے ہیں۔ اس 200 برس قدیم مندر میں دیگر کشمیری پنڈت بھی عبادت کے لیے آتے ہیں جب کہ بھارت کے وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے اہلکار مندر کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں۔
رتن ژکو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان 32 برس میں وادی میں پائے جانے والے نامساعد حالات کے باوجود یہاں آکر پوجا کرنے میں کبھی دقت نہیں ہوئی البتہ وہ دلی سکون حاصل نہ ہو سکا جو پہلے یہاں آ کر ملتا تھا۔
رتن ژکو ایک نجی فرم میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان برسوں میں انہیں کام کی جگہ تک جانے آنے میں یا وہاں اپنا کام سر انجام دینے کے دوران بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اس استفسار پر کہ ان کے مسلم ساتھی کا ان کے ساتھ اور ان کے پڑوسیوں کا ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ رویہ کیسا رہا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ بظاہر تو سب ٹھیک ہی ہیں۔ وہ سب ہمارے ساتھ اچھی طرح سے پیش آتے رہے ہیں البتہ کس کے دل میں کیا ہے؟ یہ میں نہیں کہہ سکتا اور نہ کوئی اور یہ بتا سکتا ہے کہ میرے دل میں کیا ہے۔
اس سوال پر کہ انہوں نے شورش کے آغاز پر دیگر پنڈتوں کی طرح نقلِ مکانی کیوں نہیں کی؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ بس تذبذب کا شکار تھے اور فیصلہ نہیں کر پا رہا تھے کہ ان کو ہجرت کرنی چاہیے یا نہیں۔ان کے مطابق ’’میرے یہاں سے نہ جانے میں اس امید کا بھی بڑا دخل تھا کہ وادی میں ایسے حالات ہمیشہ نہیں رہیں گے بلکہ بہت جلد امن لوٹ آئے گا۔‘‘
ساٹھ ہزار خاندانوں کی نقلِ مکانی
کشمیر کے ریلیف اینڈ رِی ہیبلیٹیشن کمشنر کے دفتر کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1990 اور 1991 میں شورش کے پیشِ نظر لگ بھگ 60 ہزار خانداںوں نے نقل مکانی کی تھی، جن میں اکثریت کشمیری پنڈتوں کی تھی تاہم چند مسلمان اور سکھ خاندان بھی وادی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں میں سے 37 ہزار خاندان سرمائی دارالحکومت جموں اور ریاست کے بعض دوسرے حصوں میں رہ رہے ہیں اور باقی ماندہ 23 ہزار خاندان ریاست سے باہرجا چکے ہیں۔
کشمیری پنڈتوں کی بعض سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ شورش کے آغاز پر وادی سے ہجرت کرنے والے پنڈتوں کی تعداد سات لاکھ کے آس پاس ہے۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں اُن لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو 90-1989 سے پہلے ملازمتوں ، کاروبار اور ذاتی وجوہات پر کشمیر چھوڑ کر گئے تھے۔
شورش کے آغاز پر مشتبہ عسکریت پسندوں نے مقامی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کئی کشمیری پنڈتوں کو ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا تھا ۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیری پنڈت اس لیے ہدف بنے کیوں کہ ان کی شناخت ریاست کا ساتھ دینے والوں میں کی گئی۔
'پنُن کشمیر'نامی پنڈتوں کی تنظیم الزام لگاتی ہےکہ انہیں اور دوسرے ہندوؤں کو نسلی کشی کے منصوبےکے تحت ہدف بنایا گیا۔
کتنے کشمیری پنڈت قتل ہوئے؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کشمیر میں مارچ 1989 سے دسمبر 1990 کے درمیان129 پنڈتوں کو قتل کیا گیا اور شورش کے آغاز سے اب تک عسکریت پسندوں یا نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں مارے گئے ہندوؤں کی کل تعداد 230 کے قریب ہے۔
چند سال پہلے 'روٹس اِن کشمیر' نامی کشمیری مہاجرین کی تنظیم نے بھارت کی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے مطالبہ کیا تھا کہ ان اموات کی از سرِ نو تحقیقات کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے پنڈتوں کی مجموعی تعداد 700 سے زائد ہے۔
کشمیر میں موجود پنڈتوں کی ایک تنظیم 'کشمیری پنڈت سنگرش سمِتی' کے صدر سنجے کمار تکو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ 32 برس کے دوراں 729 پنڈتوں کو ہلاک کیا گیا۔ ان میں 21 مارچ 1997 کو ضلع بڈگام کے سنگرام پورہ نامی گاؤں میں اجتماعی طور پر قتل کیے گئے سات افراد، ۲۵ جنوری 1998 کو ضلع گاندربل کے وندہامہ گاؤں میں23 اور 23 مارچ 2003 کو پُلوامہ کے نادی مرگ گاؤں میں24 کشمیری پنڈت بھی شامل ہیں۔
پولیس نے قتلِ عام کے ان تینوں واقعات کے لیے بھی عسکریت پسندوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔
سنجے تکو کہتے ہیں کہ شورش کے آغاز پر بڑے پیمانے پر پیش آنے والے پر تشدد واقعات سےخوف و ہراس ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات او ر پھر سنگرام پورہ، وندہ ہامہ اور نادی مرگ میں پنڈتوں کے اجتماعی قتل کے باوجود اقلیتی برہمن ہندوؤں کے 808 خاندان کشمیر ہی میں مقیم رہے۔
ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات
تاہم ان کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران کشمیری پنڈتوں کی ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے جس سے وہ خوف و ہراس کے شکار ہیں اور ان میں سے کئی ایک ہجرت کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پہلے اتنے خوف زدہ کبھی نہیں تھے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران سات کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا گیا ۔ یہ سب کے سب وہ لوگ تھے جنہوں نے 1990 کے نامساعد حالات اور بعد کے بظاہر حوصلہ شِکن واقعات کے باوجود وادی ہی میں رہنا پسند کیا تھا۔
گزشتہ دنوں مقامی اخبارات میں یہ خبر چھپی تھی کہ جنوبی ضلع شوپیاں میں 15 اکتوبر کو ایک کشمیری پنڈت کسان پورن کرشن بھٹ کے قتل کے بعد قریبی گاؤں کے 10 پنڈت خاندان ہجرت کرکے جموں منتقل ہوئے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ نے اس خبر کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ چند ایک پنڈت گھرانے موسمِ سرما کی وجہ سے سرمائی دارالحکومت منتقل ہوئے ہیں جو ان کا برسوں سے معمول رہا ہے۔
البتہ سنجے تکو کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں وادی میں رہنے پنڈتوں کے تین ہزار چار سو64 نفوس پر مشتمل 808 خاندانوں میں سے 17 خاندان مستقل طور پر جموں ہجرت کرگئے ہیں۔
انہوں نے اس کی وجہ ٹارگٹ کلنگ کی تازہ لہر قرار دیا۔
عسکریت پسندی کی نئی لہر
ان کا مزید کہنا تھا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد وادی میں پائی جانے والی صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے۔ باپ کو پتا نہیں کہ اُس کا بیٹا کیا کر رہا ہے۔ اگر ایک بھائی چپکے سے انتہا پسندوں کی صف میں شامل ہو گیا اورمسلح ہے تو دوسرے بھائی کو اس کا علم نہیں ۔ یہ بھی پتا نہیں کہ مختلف ناموں سے جو نئی جنگجو تنظیمیں وجود میں آ گئی ہیں انہیں کون لوگ چلا رہے ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں۔
عسکریت پسندی کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکریت پسندی کے عروج پر بھی وہ لوگ بالکل عیاں تھے جنہوں نے بندوق اٹھا رکھی تھی۔ سب ہی بندوق بردار نظر آنے والے تھے اور کسی مشکل صورتِ حال میں اُن تک پہنچا ناممکن نہ تھا۔ آج سب کچھ پردے کے پیچھے ہو رہا ہے اور کئی کشمیری پنڈت یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ 1990 میں کشمیر میں ہی رہنے کا ان کا فیصلہ شاید غلط تھا۔
نقل مکانی کی وجوہات
استصواب ِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتیں، عسکری تنظیمیں اور بعض علاقائی بھارت نواز سیاسی جماعتیں کئی بار یہ کہہ چکی ہیں کہ 1990 میں کشمیری پنڈتوں کو ایک سازش کے تحت وادی سے نقلِ مکانی پر مجبور کیا گیا تھا تاکہ کشمیری مسلمانوں کو بدنام کیا جاسکے اور تحریکِ مزاحمت کو مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کی ایک مہم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
اس سلسلے میں جموں و کشمیر کے اُس وقت کے گورنر جگموہن ملہوترہ کے کردار کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
لیکن سنجے تکو نہیں سمجھتے کہ کشمیری پنڈتوں کا وادی سے بڑے پیمانے پر اخراج کسی سازش کا نتیجہ تھا بلکہ ان کے بقول حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ وہ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ" یہ کشمیری پنڈتوں کے فرقے کا کوئی اجتماعی فیصلہ نہیں تھا بلکہ لوگوں نے انفرادی طور پر وادی سے نقل مکانی کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور پھر تیزی سے اس کا رجحان پیدا ہوا۔
’پنڈتوں کی نقل مکانی بد قسمتی کی بات ہے
گنپت یار ہی کے ایک مسلمان باشندے محمد سلطان کشمیری پنڈتوں کے انخلا کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک بڑا پر آشوب دور تھا، جس میں ہم بھی کچھ نہیں کر سکے اور خواہش کے باوجود اپنے پنڈت پڑوسیوں کو ہجرت کرنے سے نہیں روک سکے۔ وہ یہاں سے چلے گئے یہ کشمیری قوم کی بدقسمتی ہے۔
لیکن وہ رتن ژکو جیسے پڑوسیوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود وادی ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔
محمد سلطان پنساری کی دکان چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یہ علاقہ صدیوں سے امن اور بھائی چارے کا گہوارا رہا تھا اور ہے۔ چند ہی کنبے سہی یہ لوگ یعنی کشمیری پنڈت اور ہم یہاں بھائیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔ گزشتہ 32 سال کے دوران کشمیریوں نے کیا کچھ نہیں برداشت کیا لیکن ہم نے اپنے ان پنڈت پڑوسیوں کا بال بھی بیکا نہ ہونے دیا۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور جموں و کشمیر کی سب سے پرانی بھارت نواز علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کہتے ہیں کہ وادیٴ کشمیر کا اکثریتی مسلم طبقہ 1990 میں پنڈتوں کی عملی مدد اس لیے نہ کرسکا کیوں کہ وہ خود بندوق سے خوف زدہ تھا۔
سابق گورنر کا نقل مکانی میں کردار
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبۂ قانون اور بین الاقومی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین فاروق عبد اللہ کے اس بیان سے اتفاق نہیں کرتے ۔
پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ ایک طرف کئی کشمیری تنظیموں کا، جن میں نیشنل کانفرنس بھی شامل ہے، یہ استدلال رہا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو بھارت کی حکومت کے ایک منصوبے کے تحت وادی سے نکالا گیا، جسے گورنر جگموہن نے عملی جامہ پہنایا۔ اگر واقعی ایسا تھا تو کشمیری مسلمان اس اخراج کو نہیں روک سکتے تھے۔ اب یہ کہنا کہ کشمیری مسلمانوں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ کشمیری پنڈتوں کے کام نہیں آسکے میرے خیال میں تضاد بیانی ہے۔
رتن ژکو کہتے ہیں کہ وادی میں حالات کی تازہ نوعیت اگرچہ اُن کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہے لیکن انہوں نے کئی برس پہلے حالات سے سمجھوتہ کرنے کا گُر سیکھ لیا تھا۔
"میرے آگے پیچھے، آس پڑوس میں ، میرے کام کرنے کی جگہ پر جو لوگ ہیں وہی میرے رشتے دار بھی ہیں،دوست بھی اور بھائی بھی۔"
اس سوال پر کہ کیا مذہبی تہواروں کے مواقع پر انہیں کشمیری پنڈت رشتے داروں اور دوستوں وغیرہ کی غیر موجودگی کا احساس ستاتا ہے؟ تو انہوں نے کہا "جو یہاں ہیں، میں ان ہی کے ساتھ یہ تہوار خوشی خوشی مناتا ہوں۔"
سجنے تکو حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مہاجر کشمیری پنڈتوں کی واپسی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔
حکومت کے اقدامات ناکافی
انہوں نے کہا اگرآپ مجھ سے پوچھیں گے تو میں یہی کہوں گا کہ پانچ ا اگست 2019 سے پہلے اس سلسلے میں کیے گئے اقدامات ناکافی تھے اور پانچ اگست 2019 کے بعد چند ایک سرکاری افسران کو چھوڑ کو کوئی بھی اس معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہا بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جن پنڈتوں نے عام رجحان کے برخلاف وادی میں رہنا پسند کیا تھا، وہ بھی اب سوچ رہے ہیں کہ شاید انہوں نے غلط فیصلہ کیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے وزیرِ اعظم کے جاب پیکج کے تحت جو ساڑھے پانچ ہزار پنڈت نوجوان وادی میں آئے تھے، ان کی بھاری اکثریت چند ماہ پہلے ضلع بڈگام میں اپنے ایک ساتھی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد جموں چلی گئی اور واپس لوٹنے اور دوبارہ ڈیوٹی پر حاضر ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا پرائم منسٹر جاب پیکج کے تحت 2006 اور اس کے بعد وادی میں جن کشمیری پنڈتوں کا سرکاری ملازمتوں پر تقرر ہوا تھا۔ اُن سب کو محفوظ مقامات پر تعینات کرنے کے پہلے ہی احکامات صادر کیے گئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ حکومت نے مہاجر کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی اور آباد کاری کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں اور مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں ان کے لیے مختلف اضلاع میں خصوصی رہائشی کالونیوں کا قیام بھی شامل ہے۔
ان کے مطابق اس کے علاوہ نقل مکانی کرنے والے پنڈتوں کو ان سے غیر قانونی طور پر یا جبرا" حاصل کی گئی املاک واپس دلانے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ مجبوری کی حالت میں فروخت کی گئی املاک کے معاملات کا بھی جائز شکایات کے اندراج پر لیا جا رہا ہے۔
عسکریت پسندوں کے خاتمے کا دعویٰ
ایک اعلیٰ پولیس افسر وجے کمار کہتے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات میں ملوث عسکریت پسندوں کا کام تمام کر دیا گیا ہے یا پھر ان کی شناخت ہو چکی ہے اور انہیں بہت جلد کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کہ دہشت گرد اقلیتی فرقے کو مزید نقصان نہ پہنچائیں، اس کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
جموں میں پناہ گزین ایک کشمیری پنڈت ترلوکی ناتھ رازداں کا کہنا تھا کہ مہاجر کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور وادی میں دوبارہ آباد کاری کے سلسلے میں سرکار کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو نہیں بلکہ کشمیری مسلمانوں کی طرف سے پنڈتوں میں اعتماد اور بھروسے کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اہمیت حاصل ہے۔
سنجے تکو مزید کہتے ہیں کہ اربابِ اقتدار، سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو چھوڑ دیجیے۔ ان سے خیر کی امید نہیں ہے۔ حال ہی میں کشمیری مسلمانوں کی مذہبی قیادت، سماجی کارکنوں، دیہات اور شہری علاقوں کی قابلِ احترام شخصیات سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ پنڈتوں کے گھروں میں جانے کو اپنا معمول بنائیں تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے۔