ہوائی کی آگ اور غیر قانونی تارکین وطن: 'جان تو بچ گئی، اب ملک بدری کاسامنا ہے'

امریکی ریاست ہوائی کی لوہائینا کاونٹی میں آگ سے جل جانے والی آبادی کی ایک جھلک، جس کے متاثرین میں غیر قانونی تارکین وطن بھی شامل ہیں

بیرون ملک سے روزگار کی تلاش میں آنے والوں کے لئے ہوائی کا شہر لاہائینا ایک نخلستان تھا جہاں ملازمت کے بے شمار مواقعے ایک پر آسائش زندگی کی ضمانت تھے۔ خوبصورت قدرتی نظاروں میں گھرے اس شہر میں تارکینِ وطن دنیا بھر سے جمع ہو گئے تھے۔

اس شہر کی آبادی میں غیر ملکی باشندوں کی تعداد 32% تھی جو 2022 میں امریکی مردم شماری کے مطابق پورے امریکہ میں موجود غیرملکیوں سے تقریباً دوگنی تعداد ہے۔ اور وہ اس کمیونٹی میں اہمیت رکھتے تھے۔

اس ماہ کے شروع میں لگنے والی آگ سے سمندر کے کنارے آباد شہر لاہائینا میں تباہی کا منظر ہے ۔ ریاست کے گورنر جوش گرین کے مطابق، آگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 114 ہو گئی ہے ۔ 1000 سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں اور خدشہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

گرین نے امریکی ٹیلی ویژن سی بی ایس کو اتوار کے روز بتایا کہ ریسکیو ٹیموں نے 85% علاقے کا جائزہ مکمل کر لیا ہے اور باقی علاقوں میں تلاش کے کام میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ صدر بائیڈن اور خاتونِ اول جل بائیڈن پیر کے روز امریکی ریاست ہوائی کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ ماوی میں ہولناک آتشزدگی کے بعد ہونے والے وسیع نقصان کا مشاہدہ کرنے اور عہدیداروں سے ملاقات کے علاوہ متاثرین کی صورتِ حال اور امدادی کاموں کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔

13 ہزار کی آبادی کا شہر لاہائینا جنگل کی طرح پھیلتی آگ سے تقریباً تباہ ہو چکا ہے۔

صدر کا موٹر کیڈ پورے شہر سے گزرا جہاں تباہ شدہ گھر، جلی ہوئی گاڑیاں اور پام کے جلے ہوئے درختوں کی قطاریں تھیں۔

جنگل کی طرح پھیلتی آگ میں سب جل گیا

ہوائی میں آگ کا منظر۔ فوٹو اے پی

لیکن طوفانی ہواؤں سے پھیلتے آگ کے شعلوں میں بہت سوں کا سب کچھ جل کر خاک ہوگیا، ان کا سامانِ زندگی، ان کے کاغذات سب کچھ خاکستر ہو گیا۔ یوں تو زندگی بھی سب کی محفوظ نہیں رہی مگر جو بچ گئے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ اب آگے کیا ہوگا۔۔۔وہ امریکہ میں رہیں گے یا انہیں امریکہ چھوڑ کر جانا ہوگا؟

راکھ سے ابھری کہانیاں

فریڈی ٹامس کا تعلق فلپائن سے ہے۔ جس روز آگ لگی وہ لاہائینا میں اپنے لان میں کام کررہے تھے۔ آگ دیکھ کر انہوں نے گھر کے اندر سیف سےاپنی کچھ قیمتی چیزیں بچانا چاہیں مگر فوراً ہی انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے اور وہ دھوئیں سے سیاہ چہرہ لیے جان بچا کر بھاگے۔

پک اپ ٹرک چلاتے ہوئے انہیں سیاہ دھوئیں میں صرف اگلی گاڑی کی بتیاں نظر آرہی تھیں۔وہ دعائیں مانگتے آگے بڑھتے رہے کہ خدا کرے وہ درست سمت جا رہے ہوں

ہوائی میں آگ: گھر چھوڑ کر جانے والوں کی گاڑیوں کی قطاریں۔ فوٹو رائٹڑز

ہوٹل ملازم کے طور پر ریٹائر ہونے والے 65 سالہ ٹامس اپنے تباہ شدہ گھر میں واپس آئے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا بھی تھا۔ انہوں نے سیف تلاش کرنا چاہا جس میں ان کے پاسپورٹ، نیچر لائیزیشن کے کاغذات، دیگر دستاویزات اور 35ہزار ڈالر تھے۔

راکھ میں تلاش کیا تو سیف ملا مگر طوفانی ہواؤں سے اس کا منہ کھل گیا تھا اور اس میں رکھی ہر شے جل کرخاک ہوچکی تھی۔

زندہ تو بچ تو گئے مگر جلاوطنی کا خوف مارے دے رہا ہے

ماوی کاؤنٹی کے مئیر رچرڈ بسان کا کہنا ہے کہ 1285 سے زیادہ لوگوں کو بچا لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، "جوں جوں تلاش کا کام آگے بڑھ رہا ہے، اس تعداد سے ہم خوش بھی ہیں اور اداس بھی۔امید ہے شناخت کیے گئے لوگوں کی تعداد بڑھنے سے لاپتہ لوگوں کی تعداد کم ہوگی۔ ہماری فہرست میں اس وقت 850 لاپتہ افراد کے نام ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے کیونکہ ابتدائی فہرست میں لاپتہ افراد کی تعداد 2,000 تھی۔"

سان فرانسسکو میں میکسیکو کے قونصل خانے نے بتایا ہے کہ ماوی میں 3,000 کے لگ بھگ میکسیکن رہتے تھے۔ ان میں بہت سے انناس کی پیداوارسے منسلک تھے یا ہوٹلوں اور ریستورانوں یا سیاحت سے وابستہ دیگر کمپنیوں میں کام کرتے تھے۔

سان فرانسسکو میں میکسیکو کے قونصل خانے میں قونصل جنرل ریمیڈیوس گومیز ارناؤ نے بتایا کہ میکسیکو کی حکومت ماوی میں اپنے کم از کم 250 شہریوں سے رابطے میں ہے اور جن کے پاسپورٹ یا پیدائشی سرٹیفیکیٹ آگ میں جل گئے انہیں نئی دستاویزات فراہم کی جا رہی ہیں۔ جبکہ آگ میں ہلاک ہونے والیےمیکسیکنز کی باقیات ان کے ملک، ان کے خاندانوں کو بھجوائی جا رہی ہیں۔

امریکہ: ریاست ہوائی کے تاریخی شہرلاہائینا میں سب کچھ جل کر خاکستر

انہوں نے کہا، " بہت سوں کے گھر جل گئے اور ان کے تمام کاغذات بھی جل کر راکھ ہو گئے۔

کاروبار جل جانے کے بعد بچ رہنے والے بہت سے لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔بہت سوں کے سر پر چھت نہیں اور شہر کے ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں کام کرنے والے نہیں جانتے آگے کیا ہوگا۔

کیون بلاک امیگریشن کے اٹارنی ہیں۔ وہ کہتے ہیں بہت سے لوگوں کے پاس یا تومستقل رہائش کا اجازت نامہ تھا یا انہیں عارضی طور پر رہنے اور کام کرنے کی اجازت تھی اور بعض امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔

وہ کہتے ہیں بہت سے لوگ کسی مدد کی درخواست کرتے ڈرتے ہیں۔ حتیٰ کہ حکومتی ادارے فیما (the Federal Emergency Management Agency) کے اہلکار یا طبی عملے کے ارکان شہر میں آتے ہیں تو بھی وہ مدد کی درخواست نہیں کرتے مبادا ملک بدر کر دیے جائیں۔

تارکینِ وطن کے بچے امدادی کاموں میں مصروف

فیما نے ایک دستاویز جاری کی ہے کہ اس تباہی سے متاثرہ کوئی بھی شخص امداد حاصل کر سکتا ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکی شہری نہیں ہیں یا جنہیں ملک بدری کا خطرہ ہے۔ اور ایسے لوگوں کو ایک سال تک اس کا خطرہ نہیں ہوگا۔

ایسے میں تارکینِ وطن کے وہ بچے جو اسوقت جب یہاں لائے گئے تو بہت چھوٹے تھے، انہوں نے ماوی کو ہی اپنا وطن جانا ہے۔ اٹارنی بلاک کہتے ہیں وہ امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

بلاک نے کہا،" وہ فرسٹ ریسپونڈرز کی طرح سب سے پہلے مدد کو پہنچ رہے ہیں اور کھانا اور دیگر اشیا لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ اوریہ احساس بڑھ گیا ہے کہ وہ کمیونٹی کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔"

لاہائینا میں امداد کی رضاکارانہ کوششیں۔ فوٹو اےپی

ان ہی لوگوں میں میکسیکو سے تعلق رکھنے والے چوئی میڈریگال بھی ہیں جو اپنے خاندان کے نو افراد کے ساتھ آگ سے بچنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر نکل گئے تھے۔ اور اب جب واپس آئے ہیں تو انہوں نے دیکھا کہ ان کا وہ گھر تباہ ہو چکا ہے جسے ان کی ماں نے 30 سال کی محنت اور بچت سے خریدا تھا اور وہ فوڈ ٹرک بھی جس پر انہوں نے صرف تین ماہ پہلے کارو بارشروع کیا تھا۔ خود وہ امریکہ کے ڈاکا پروگرام کے تحت امریکہ میں مقیم ہیں۔

DACA) Deferred Action for Childhood Arrivals program )ایسے تارکینِ وطن کے بچوں کو امریکہ میں رہنے دینے کی اجازت کا پروگرام ہے جو جب امریکہ لائے گئے تو بہت چھوٹے تھے اور ان کا کوئی قانونی اسٹیٹس نہیں ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اپنی کمیونٹی کی مدد کے جذبے سے سرشار گھر گھر دستک دے کر امدادی اشیا جمع کرتے ہیں۔

میڈریگال کہتے ہیں لوگ سہمے ہوئے ہیں لیکن انہیں احساس ہے کہ،" یہاں آئے تو خالی ہاتھ تھے مگر زندگی شروع تو کی تھی ناں۔۔۔سو اب بھی زیرو سے شروع کرسکتے ہیں۔"

( اس خبر میں کچھ مواد اے پی سے لیا گیا)