پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے سب سے پر امن شہر۔۔ ایبٹ آباد کا نام 2 مئی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد زبان زد عام ہے ۔ دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ میں ایبٹ آباد کا نام بھرا پڑا ہے۔ گزشتہ دو دنوں سے انٹرنیٹ پر اس شہر کی سب سے زیادہ تصاویر دیکھی جارہی ہیں۔ سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا شہر بھی یہی ہے ۔اس شہرکا جغرافیہ دیکھنے کے لئے دنیا بھر کے لوگوں کاتجسس دیدنی ہے۔
نائن الیون کے بعد دنیا میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخواہ سب سے زیادہ متاثر ہوا لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال کے باوجود تقریباً اسی لاکھ کی آبادی رکھنے والا ہزارہ ڈویژن محفوظ رہا۔ سطح سمندر سے چار ہزار دو سو فٹ بلند ہزارہ ڈویژن کا صدر مقام ایبٹ آباد نو لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے ۔ یہاں کی تقریباً 95 فیصد آبادی کی مادری زبان ہندکو ہے ۔
ایبٹ آباد میں اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے موجود ہیں اور دیگر شہروں سے لوگ وہاں تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں ،اسی لئے اسے اسکولز کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ لوگ انتہائی باشعور اور اکثریت تعلیم یافتہ ہے ۔یہاں شرح خواندگی تقریباً اسی فیصد ہے۔ قدرت نے اس خطے کو دل کھول کے حسن بخشاہے ۔ ہر سال گرمیوں میں ناصرف ملک بلکہ بیرون ملک سے بھی ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ یہاں برادری سسٹم انتہائی مضبوط ہے اور لوگ ایک دوسرے کے غم و خوشی میں بھر پور طریقے سے شریک ہوتے ہیں ۔
ایبٹ آبا د پولیس کا حلقہ شہر تک ہی محدود ہے جبکہ متعلقہ علاقوں میں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے اور زیادہ تر لوگ اپنے مسائل خود ہی جرگہ سسٹم یا برادری سسٹم کے تحت حل کر لیتے ہیں ۔یہاں کے لوگ رات کو جلدی سونے کے عادی ہیں اوررات دس بجے کے آس پاس سڑکوں پر سناٹا چھا جاتا ہے ۔
2مئی کی بھیانک رات
دو مئی کی رات اس شہر نے اس وقت دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی جب دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب شخص اور القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن ایک آپریشن میں مارا گیا ۔ اس رات و موسم متعدل تھا اورایبٹ آباد کے علاقے کاکول کے قریب واقع پاکستان کے ملٹری اکیڈمی سے اسی گز کے فاصلے پر ٹھنڈا چوہیاکے علاقے میں لوگ اپنے اپنے گھروں میں گہری نیند سو رہے تھے کہ رات بارہ بجکر 28 منٹ پر ہیلی کاپٹرز کی گھڑگھڑاہٹ سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ ( چوہیا مقامی زبان میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں زمین سے قدرتی پانی نکلتا ہے اور اس کے ارد گرد کچھ پتھر وغیرہ لگا کر پانی جمع کر لیا جاتا ہے )
ملکی حالات کے پیش نظر یہاں کے اکثر لوگوں نے معاملے کو فوراً ہی بھانپ لیا کہ کچھ گڑ بڑہے ۔ اسی دوران کچھ لوگوں نے گھر وں کی چھتوں پر کھڑکیوں سے باہر جھانک کر دیکھا تو انہیں دو ہیلی کاپٹر ز انتہائی نچلی پرواز کرتے دکھائی دیئے ۔ فوری طور پر یہ لوگ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ، اسی دوران فونز کے ذریعے لوگوں نے ایک دوسرے سے خیریت معلوم کرنا شروع کر دی تاہم کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اصل معاملہ کیا ہے ۔ تقریباً آدھا گھنٹہ یہ سلسلہ جاری رہا جس کے بعد اچانک شدید فائرنگ کی آوازیں ان کی سماعت سے ٹکرانے لگیں اور تقریبا ایک بجکر چار منٹ پر ایک زور دار دھماکا سنائی دیا جس کی شدت سے پورا علاقہ لرز اٹھا اور عمارتوں کی شیشے ٹوٹ گئے ۔عورتوں اور بچوں کے زور زور سے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔
مقامی افرادکے مطابق دھماکے کے بعد پورے علاقے میں ہر طرف دھواں ہی دھواں پھیل گیا ، لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے ۔ گہرے دھویں کے بادلوں اور رات کی تاریکی میں آنکھیں کچھ دیکھنے سے قاصر تھیں ۔ چار منٹ سے بھی کم وقت میں زور زور سے سائرن کی آوازیں آنے لگیں اور جب دھویں کے بادل کچھ چھٹنے لگے تو ہر طرف پاکستان آرمی کی گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آ رہی تھیں ۔ افراتفری کا عالم تھا ۔ ایک طرف ایک تین منزلہ عمارت کے قریب کھیت میں ایک ہیلی کاپٹر کا ملبہ پڑا تھا جہاں سے دور دور تک آگ کے بلند ہوتے شعلے دکھائی دے رہے تھے جبکہ دوسراہیلی کاپٹر غائب تھا ۔
یہ وہی مکان تھا جہاں دنیا کے مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن نے اپنی زندگی کا آخری سانس لیا ۔ بارہ سے اٹھارہ فٹ کی چار دیواری پر خاردار تاروں کے علاوہ کیمرے بھی نصب تھے ۔ چار دیواری سے تقریبا اٹھارہ فٹ اندر سفید رنگ کی تین منزلہ عمارت کے اندر نہ ٹیلی فون اور نہ ہی انٹر نیٹ کی سہولت میسر تھی ۔ پڑوس میں رہائش پذیر لوگوں کا کہنا ہے کہ چند سال قبل چار سدہ کے دو بھائی جو ارشد اور چھوٹا پٹھان کے ناموں سے یہاں آباد ہوئے ، دونوں کی عمر تقریبا اٹھائیس سے تیس سال کے قریب تھی اور کلین شیو تھے ۔ ان دونوں کو اکثر گھر کے اندر آتے جاتے دیکھا گیا ۔یہ دیگر لوگوں سے بہت کم ملتے تھے تاہم جب بھی ملتے ان کا انتہائی دوستانہ رویہ ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ کسی کو ان پر شک نہیں ہوا ۔ اس گھر کی عورتیں بھی بہت کم باہر آتیں۔ہمیشہ برقعہ پہنے ہوتیں ، اوس پڑوس میں بھی انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ تاہم اس علاقے میں یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ بیشتر خواتین پردہ کرتی ہیں ۔
اس رات کا ہر پل مقامی افرادکو سالوں پر محیط نظر آتا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر ہوا کیا ، اکثریت کاگمان تھا کہ شاید کاکول اکیڈمی پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ اسی کشمکش میں نئے سورج کے نمودار ہوتے ہی میڈیا پر اس کارروائی میں اسامہ کی ہلاکت کی خبر نے ان پر سکتہ طاری کر دیا ۔
اس واقعہ کو ایک دن گزر گیا تاہم وہاں کے لوگ ا بھی تک حیرت زدہ ہیں کہ اس قدر حساس علاقے میں دنیا کا مطلوب ترین شخص رہائش پذیر تھا اورایک عرصے تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔