افغان حکومت نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کا واحد اور پائیدار حل ملک میں انتخابات کے انعقاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس حوالے سے افغان صدر اشرف غنی نے نئی سیاسی حکومت کے قیام اور پائیدار امن کے لیے تین مراحل پر مشتمل 'پیس روڈ میپ' تیار کر لیا ہے۔
صدر غنی کے تیار کردہ امن منصوبے سے متعلق ایسے موقع پر بازگشت ہو رہی ہے جب افغانستان کی صورتِ حال پر ترکی کے شہر استنبول میں رواں ماہ کانفرنس ہو گی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغان صدر اپنے 'پیس روڈ میپ' کو استنبول کانفرنس کے دوران پیش کریں گے جسے وہ افغانستان میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ شیئر کر چکے ہیں۔
'پیس روڈ میپ' کی ایک شق کے مطابق طالبان سے معاہدہ اور انتخابات سے قبل جنگ بندی کا مطالبہ پیش کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اشرف غنی اپنا مستقبل کا ایجنڈا ایسے وقت میں ترتیب دے رہے ہیں جب امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے حال ہی میں لکھے ایک خط میں افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے عبوری حکومت کے قیام کی بات کی تھی۔
افغان صدر نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا اور اب صدر غنی کی جانب سے 'پیس روڈ میپ' سامنے آنے کی اطلاعات ہیں۔
افغانستان کے سرکاری میڈیا کے ڈائریکٹر دوا خان مینا پال کا کہنا ہے کہ استنبول کانفرنس کے دوران افغانستان کا اولین مطالبہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل پر مبنی ہو گا اور افغانستان کے عوام کسی دوسرے متبادل نظام کی حمایت نہیں کریں گے۔
SEE ALSO: طالبان اور افغان فورسز کا استنبول کانفرنس سے قبل ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰوائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان حکومت یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ کسی اور ملک کی پالیسی افغان عوام پر مسلط کی جائے۔
یاد رہے کہ افغان مسئلے کے حل کے لیے امریکہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ایک کانفرنس کے اہتمام پر زور دے رہا ہے۔ اس حوالے سے یکم مئی کی ڈیڈ لائن بھی سر پر آن پہنچی ہے جس کے تحت تمام امریکی اور اتحادی افواج کو افغانستان سے انخلا یقینی بنانا ہے۔
اگرچہ بعض ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت جاری ہے تاہم سرکاری سطح پر فریقین نے اس بابت اپنی رائے نہیں دی ہے۔
ماہرین استنبول کانفرنس کو افغان امن عمل کی آخری کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
کابل میں مقیم سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی کے مطابق قطر معاہدے کا کوئی خاطر خوا نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس لیے امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے تمام سیاسی اور جہادی گروہ، افغان حکومت اور طالبان کو 'بون کانفرنس' کی طرز پر امن کا ایک نیا فارمولہ دیا جائے اور اس کی روشنی میں افغانستان کے پائیدار حل کے لیے نتیجہ خیز مذاکرات کیے جائیں۔
یاد رہے کہ 2001 میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جرمنی کے شہر 'بون' میں افغانستان کے مستقبل کے لیے عالمی طاقتوں نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ اس کانفرنس کے بعد صدر حامد کرزئی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور اس طرح افغانستان میں جمہوری حکومت کا آغاز ہوا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سمیع یوسف زئی کا کہنا تھا کہ 'بون کانفرنس' کے بعد جس طرز پر شمالی اتحاد کو وسیع اختیارات دیے گئے تھے۔ ٹھیک اسی طرز پر طالبان کو زیادہ سے زیادہ حکومت میں حصہ دینے کی بات کی جا رہی ہے۔
سمیع یوسف زئی کے مطابق استنبول کانفرنس کے نتیجہ خیز ہونے کے حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ طالبان اب تک عالمی سطح پر سیاسی طور پر خود کو صحیح معنوں میں منوا نہیں سکے ہیں۔
ان کے بقول طالبان کے لیے استنبول کانفرنس ایک نادر موقع ہے جس میں وہ افغان حکومت کا حصہ بننے اور افغانستان میں پائیدار امن کے حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے پر اتفاق کر سکتے ہیں۔
سمیع یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ 20 برس کی شورش کے بعد بھی خواتین اور جمہوریت کے بارے میں طالبان کی سوچ اب تک 90 کی دہائی والی ہے۔
یاد رہے کہ 1996 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور سخت قوانین نافذ کیے تھے۔
طالبان کی حکومت کو اس وقت پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے علاوہ عالمی سطح پر کسی اور ملک نے تسلیم نہیں کیا تھا۔