امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن اتوار کو اپنے پہلے دورۂ افغانستان پر کابل پہنچے جہاں اُنہوں نے صدر اشرف غنی سمیت دیگر اعلٰی حکام سے امن عمل سمیت دیگر اُمور پر تبادلۂ خیال کیا۔
امریکی وزیرِ دفاع کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغان امن معاہدے کے تحت امریکی اور اتحادی افواج کے یکم مئی تک افغانستان سے انخلا کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے۔ یہ معاہدہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس طے پایا تھا۔
اتوار کو لائیڈ آسٹن بھارت کا دورہ مکمل کرنے کے بعد کابل پہنچے تھے جہاں انہوں نے افغان صدر کے علاوہ امریکی اور اتحادی فوجی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔
امریکی محکمۂ دفاع (پینٹاگون) کے مطابق دورے کے دوران آسٹن نے کہا کہ وہ 'سننے اور سمجھنے' آئے ہیں کہ صدر اشرف غنی کے تحفظات کیا ہیں۔
پینٹاگون کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آسٹن کی کابل میں ہونے والی ملاقاتوں میں افغانستان کی موجودہ صورت حال اور سالہا سال سے بدامنی کے شکار ملک میں دیرپا امن کے حصول کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔
اپنے ہمراہ سفر کرنے والے میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے آسٹن نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ افغانستان میں تشدد کی سطح بہت بلند ہے۔ لہذٰا ہم یہ چاہیں گے کہ تشدد میں کمی ہو۔
اُن کے بقول تشدد میں کمی کی صورت میں ہی تنازع کے سفارتی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
آسٹن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے جن شراکت داروں سے بھی یہاں بات کی ہےم، وہ سب جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
دوسری جانب امریکی وزیرِ دفاع سے ملاقات کے بعد افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اُنہوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر غنی نے امریکی وزیرِ دفاع سے کہا ہے کہ منصفانہ اور مستقل امن کا قیام افغان حکومت کے لیے ایک مقدس فریضہ ہے اور اس مقصد تک پہنچنے کے لیے قومی سطح پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
بیان کے مطابق صدر غنی کا کہنا تھا کہ افغان حکومت اس موقع اور اتفاق رائے سے پوری طرح فائدہ اٹھائے گی۔
ادھر امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی قومی سلامتی کی ٹیم گزشتہ برس ٹرمپ دور میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کا ازسرِ نو جائزہ لے رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے 'اے بی سی' ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر بائیڈن نے افغانستان سے فوج کے انخلا کی مئی کی ڈیڈ لائن کو مشکل قرار دیا تھا۔
امریکی وزیرِ دفاع کے دورۂ کابل سے قبل بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نومبر تک افغانستان میں فوج رکھنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ اُن کے خیال میں طالبان دوحہ معاہدے پر عمل نہیں کر رہے۔
البتہ ہفتے کو بھارت میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے آسٹن نے ان رپورٹس کو محض قیاس آرائیاں قرار دیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اب تک فوج کے افغانستان میں قیام کی مدت میں توسیع کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ اس وقت امریکہ کے 2500 فوجی افغانستان میں موجود ہیں جب کہ اس کی اتحادی افواج نیٹو کے بھی ہزاروں فوجی ملک میں تعینات ہیں۔
ماسکو میں ہونے والی حالیہ افغان امن کانفرنس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ اگر امریکی اور اتحادی افواج یکم مئی تک افغانستان سے نہ نکلیں تو وہ بھرپور ردِعمل دیں گے۔
افغان وزیرِ خارجہ کا دورۂ بھارت
امریکی وزیرِ دفاع کے کابل کے غیر اعلانیہ دورے کے بعد افغانستان کے وزیرِ خارجہ حنیف اتمر پیر کو بھارت کے تین روزے دورے پر نئی دہلی پہنچے۔ افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق بھارت میں قیام کے دوران وہ بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر سمیت دیگر بھارتی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
ان ملاقاتوں میں حنیف اتمر افغان امن عمل، افغانستان کی تعمیر و ترقی سمیت علاقائی اُمور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
افغانستان کے وزیرِ خارجہ ایک ایسے وقت نئی دہلی کا دورہ کر رہے جب حال ہی میں افغانستان میں قیامِ امن کی عالمی کوششوں میں تیز ی آئی ہے۔
عالمی اُمور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ افغان تنازع کے حل کے لیے ہونے والی کوششوں میں علاقائی ممالک کو بھی شامل کر رہی ہے۔
ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں بائیڈن انتظامیہ کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی کا محور صرف افغانستان سے فورسز کے انخلا پر نہیں ہے۔
اُن کے بقول بائیڈن انتظامیہ یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ افغانستان سے فوج کے انخلا کے بعد امن و امان کی صورتِ حال خراب نہ ہو۔