"پندرہ اگست کی صبح سب کچھ نارمل تھا ، اچانک نو سے دس بجے کے قریب ہلچل اور افراتفری شروع ہوگئی ، لوگ بھاگنا شروع ہوگئے کہ طالبان آگئے ہیں ، اس دوران ملک کے صدر بھی افغانستان چھوڑ کر چلے گئے ، بہت مشکل حالات تھے۔ "
یہ الفاظ راحت اللہ دوست کے ہیں جو گذشتہ برس اگست کے آخر میں افغانستان سے انخلا کر کے قطر پہنچے اور پھر جرمنی میں دو ہفتے گزارنے کے بعد امریکہ آگئے ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دن کچھ بھی صحیح نہیں ہو رہا تھا ، خاندان والے بھی پریشان تھے کہاب کیا ہوگا ۔ وہ لوگ جو بین الاقوامی اداروں یا امریکی فورسز کے ساتھ کام کرتے تھے وہ کوشش کر رہے تھے کہ جلد از جلد ایئرپورٹ پہنچیں اور افغانستان سے نکل جائیں۔
"پہلے تین دن تک میں بالکل نہیں سویا ،صرف چند گھنٹے ہی نیند لے سکا ،مجھے لگتا تھا یہ ایک خواب ہے، میں نیند سے جاگوں گا تو سب کچھ ٹھیک ہو گا۔"
راحت اللہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ بہت کوششوں کے بعد آخر کار وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو ئے ، لیکن ان کے خاندان کے کچھ افراد ابھی بھی افغانستان میں ہیں۔
"مجھے سب سے زیادہ اپنی بیٹی یاد آتی ہے، جب میں نے افغانستان چھوڑا تو وہ صرف دس ماہ کی تھی۔ میری کوشش ہے میرا خاندان بھی یہاں امریکہ آجا ئے اور ہم مل کر زندگی گزاریں۔"
SEE ALSO: ’طالبان پر بھروسہ نہ کریں‘ رہائی پانے والے افغان امریکی پر کیا بیتی؟ویتنام جنگ کے دور کے بعد اپنی نوعیت کے سب سے بڑے آپریشن کے تحت گزشتہ سال سے اب تک تقریباً 80 ہزار افغان شہریوں کو امریکہ میں آباد کیا گیا ہے۔لیکن یہاں امریکہ میں ایک سال گزارنے کے بعد بھی انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں یہ بے یقینی ہے کہ جب ان کی عارضی امیگریشن کی مدت جلد ختم ہو جائے گی تو وہ یہاں رہ سکیں گے یا نہیں۔
راحت اللہ کہتے ہیں کہ "امریکہ پہنچنے والے افغان پناہ گزین، عام پناہ گزین نہیں ہیں جوصرف سرحد پار کرکے امریکہ آئے ہیں، انہیں یہاں لایا گیا ہے اور فوجی اڈوں پر تین سے چار مہینے رکھا گیا ہے، ان کا بیک گراؤنڈ چیک ہو گیا ہے۔ دستاویزی کارروائی ہو گئی ہے اور اب ان پناہ گزینوں کو گرین کارڈ یا کوئی ایسی قانونی حیثیت دی جانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اطمینان سے زندگی گزار سکیں۔"
گزشتہ ہفتے، چھ امریکی سینیٹرز نے "افغان ایڈجسٹمنٹ ایکٹ " کے نام سے ایک ایسی قانون سازی متعارف کرائی ہے جو اس وقت امریکہ میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے لیے غیر یقینی صورتحال کو کم کرنے کے لیے وضع کیا گئی ہے۔
اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے، تو اس کے تحت عارضی حیثیت کے حامل افغان پناہ گزینوں کو قانونی طور پر مستقل رہائش کے لیے درخواست دینے اور امریکی شہریت حاصل کرنے کے لیے راستہ ہموار ہو جائے گا۔اس بل کے حامیوں کو امید ہے کہ یہ جلد قانون بن جائے گا۔
SEE ALSO: طالبان کے قبضے کے ایک سال بعد افغانستان میں کیا کچھ بدلا؟راحت اللہ کہتے ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کو مشکل حالات کا سامنا ہے جس کے لیے افغان ایڈجسمنٹ ایکٹ کو پاس کرانے کی ضرورت ہے ۔
وہ کہتے ہیں "ابھی لوگ تذبذب کا شکار ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔ بہت سے افغان امریکہ میں رہنے کے لیے مختلف قانونی طریقوں پر غور کر رہے ہیں جس کے لیے وہ اٹارنی کے پاس جانے کا سوچ رہے ہیں ،لیکن دیگر خرچوں کے ساتھ ساتھ وہ وکیلوں کو ہزاروں ڈالرز کہاں سے دیں۔"
راحت اللہ پرامید ہیں کہ افغانستان کی صورتِ حال میں کچھ تبدیلیاں آئیں گی او رامریکہ افغانستان کے تعلقات معمول پر آئیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ "وہاں چاہے طالبان کی حکومت ہو یا کوئی جمہوری حکومت آئے، بنیادی بات یہ ہے کہ افغانستان کے لوگ کیا چاہتے ہیں، ایک مقامی افغان کی حیثیت سے میری یہ خواہش ہے کہ وہاں امن ہو اور بین الااقوامی کمیونٹی وہاں آزادانہ جا سکے۔ "
امریکہ آنے کے بعد اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے راحت اللہ کاکہنا تھا کہ پناہ گزینوں کے لیے زبان اور ثقافت کے علاوہ یہاں مسئلہ یہ ہے آپ کو زیرو سے سب کچھ شروع کرنا پڑتا ہے ۔
"افغانستان میں اچھی تعلیم اور اچھی نوکری کرنے کے باوجود یہاں میں ایک کافی شاپ میں کام کر رہاہوں ، لیکن یہ ابھی آغاز ہے کوشش کروں گا کہ دوسری ملازمت تلاش کروں۔"