اس سوال پر کہ مہمند ایجنسی میں مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور صورتِ حال کو بہتر بنانے کا امکان کیا ہے، ممتاز دفاعی تجزیہ کارلیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ سرحدی علاقےمیں مزاحمت کا سلسلہ جاری تھا ،جِس پر مشترکہ کارروائی ضروری تھی اور اِس میں پبلک کی بھی حمایت شامل ہے۔
اُنھوں نے یہ بات اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ چونکہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین سرحدیں بند نہیں ہیں اور لوگوں کا آنا جانا جاری رہتا ہے، اِس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مکمل امن قائم ہوجائے گا۔
’لیکن، یہ ضرور ہے کہ وہ لوگ جو ہماری سکیورٹی فورسز پرحملے کرتے ہیں اور اِن راستوں سے آکر پاکستان میں دھماکے کرتے ہیں، یا وہاں اگر کوئی غیرملکی ایسے ہیں جِن کے مراکز وزیرستان یر قبائلی علاقے میں کہیں بھی ہیں، یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ اِن پر کنٹرول کیا جائے، اور اِس کام میں فوج کو پوری پاکستانی قوم کی حمایت حاصل ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ مہمند ایجنسی میں کی گئی کارروائی صحیح سمت ایک مثبت اقدام ہے۔
یہ معلوم کرنے پر کہ طالبان اور جنگجوؤں کو مجتمع ہونے سے روکنےکے لیے کیا کیا جانا چاہیئے، جنرل (ر)عبد القیوم کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت ایک خوش آئند قدم ہے۔ ’پھر یہ کہ بیرونی فورسز نکل جائیں۔ افغانستان کے ساتھ ایک دیانتدارانہ رویہ ہو، پاکستان سمیت سارے پڑوسیوں کا۔ اُن کے معاملات میں کوئی مداخلت نہ کرے۔ اُن کو موقعہ دیا جائے کہ وہ اپنی حکومت بنائیں اور پاکستان سے بیسز خالی ہوں۔ پھر مرحلہ وار جو بین الاقوامی مالی ادارے ہیں وہ یہاں سرمایہ کاری کریں۔‘
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد القیوم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ترقیاتی کام ایسے ملک کریں جو افغانیوں کو قابلِ قبول ہوں، یا خود اُن کے اپنے کنٹریکٹر کریں۔
اُن کے بقول، ’نمبر ایک ، بیرونی افواج کا انخلا ہو، نمبر دو، وہاں کے لوگوں کو موقعہ دیا جائے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کریں اورتیسرے، پاکستان، ایران اور علاقائی ممالک سارے اپنے اپنے گھروں کو ٹھیک کریں اور جتنی ہوسکے افغانستان کی مدد کریں، اور اپنے گروپ بنانے کے لیے تگ و دو نہ کریں۔‘
اِس سوال کے جواب میں کہ اِس وقت طالبان کے ساتھ امن بات چیت کو آگے بڑھانے کے کیا امکانات ہیں، معروف سیاسی تجزیہ کار، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ میڈیا رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِن کے آپس میں روابط ہوئے ہیں،‘ جب کہ باقاعدہ ڈائلاگ کا امکان ابھی ہمیں نظر نہیں آرہا‘۔
ڈاکٹر رضوی کا کہنا تھا کہ اِس مرحلے پر اگر طالبان کی طرف سے مثبت اشارے ملتے ہیں تو پھر، اُن کے بقول، بات چیت ہوگی جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ اگر کچھ طالبان یا کچھ عناصر افغانستان کے آئین کے فریم ورک میں آتے ہیں تو کن شرائط پر آئیں گے، اقتدار میں اُن کا حصہ کیا ہوگا؟ ڈاکٹر رضوی کے خیال میں، یہ وہ معاملات ہیں جو بعد کے مرحلے میں آئیں گے۔ فی الحال، تو روابط ہوئے ہیں جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن ابھی بہت سفر باقی ہے۔
یہ معلوم کرنے پر کہ بات چیت میں پاکستان کا کیا کردار ہوگا، ڈاکٹر عسکری رضوی نے کہا کہ بات چیت کے لیے سہولیت فراہم کرنے کا پاکستان کا کردار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ، اُن کے بقول، کچھ طالبان قیادت کے متعلق خیال ہے کہ پاکستان کے علاقے میں ہے یا پاکستان کے قبائلی علاقے میں ہے۔ لیکن، ڈائلاگ افغانستان کے ساتھ ہوگا، یا برہان الدین ربانی کی کونسل کے ساتھ ہوگا، لیکن پاکستان کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کرے گا، اور نہ ہی پاکستان کو اِس ڈائلاگ میں کوئی بنیادی کردار ادا کرنا چاہیئے۔
وضاحت کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا ،کیونکہ اگر افغانستان کی حکومت اور طالبان میں رضامندی نہیں ہوتی تو پاکستان کچھ بھی چاہے، وہاں امن نہیں ہوسکتا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: