پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں چترال کے مقام پر پاکستان میں داخل ہونے والے 46 افغان فوجی افسران اور اہلکاروں کو واپس افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اہلکاروں کی حوالگی کے بعد افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے پاکستان پر تنقید کی ہے۔
پاکستان فوج کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک پاکستانی افسر افغان فوجی افسر سے مصافحہ کرتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ آپ کو چائے پلانے اور کھانا کھلانے کے بعد واپس بھجوا دیا جائے گا جس پر افغان فوجی افسر کہتے ہیں کہ ہم پاکستان فوج کے شکر گزار ہیں، ہمارے ساتھ جو پاکستان فوج نے کیا ہم اسے نہیں بھلا سکتے۔
اس ویڈیو میں کچھ تصاویر بھی شامل ہیں جن میں تمام افغان فوجیوں کو ایک گروپ کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے جب کہ پاکستان فوج کی طرف سے افغان فوجی افسر کو تحفہ بھی پیش کیا جا رہا ہے۔
اس فوٹیج کے بعد سوشل میڈیا پر افغان فوجیوں کو پناہ دینے پر پاکستان فوج کی تعریفوں کے ٹوئٹس دیکھنے میں آئے لیکن افغان نائب صدر امراللہ صالح نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد اپنے اس عمل سے افغانستان میں پاکستان سے متعلق پایا جانے والا تاثر بہتر نہیں کر سکتا۔
امراللہ صالح نے فوجیوں کی حوالگی کی اس فوٹیج کو 'پروپیگنڈا اسٹنٹ' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے پروپیگنڈے سے حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی فوج افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ٹوئٹر پر چالیس سیکنڈ کا یہ کلپ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرے گا۔
افغان نائب صدر کے بیان پر پاکستان کے کسی حکومتی ذمہ دار یا فوج کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ امراللہ صالح پاکستان پر ماضی میں بھی کئی مواقع پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ کے اختتام پر پاکستانی جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کی تصویر پوسٹ کی تھی اور کہا تھا کہ "ہماری تاریخ میں ایسی کوئی تصویر نہیں ہے اور نہ ہی ہو گی۔"
اس متنازع ٹوئٹ پر پاکستان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔
اس سے قبل پندرہ جولائی کو بھی امراللہ صالح نے ایک ٹوئٹ میں پاکستان ایئر فورس پر الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فضائیہ نے افغان آرمی کو وارننگ دی ہے کہ وہ اسپن بولدک کے علاقے میں طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں۔
واضح رہے کہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ اتوار کی شب افغان نیشنل آرمی اور بارڈر پولیس کے پانچ افسران سمیت 46 اہل کاروں نے اروندو چترال سرحد سے ملحقہ علاقے میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پناہ اور محفوظ گزرگاہ کے لیے درخواست کی تھی جسے پاکستان فوج نے قبول کرتے ہوئے انہیں آنے کی اجازت دی تھی۔
پاکستان فوج نے اس سے قبل یکم جولائی کو 35 افغان فوجیوں کو پاکستانی سرحد آنے کی اجازت دینے اور بعدازاں انہیں واپس افغان حکام کے حوالے کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
پاک افغان تعلقات اور بیانات
ماہرین کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات کی بنیادی وجوہات میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور الزام تراشیاں شامل ہیں۔
افغانستان میں اس بارے میں نائب صدر امراللہ صالح اور افغان نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب پر خاص طور پر یہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ ان کے پاکستان مخالف بیانات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر فواد چوہدری اور سیکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کی طرف سے بھی سخت بیانات سامنے آئے تھے۔
اس بارے میں پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان اس وقت ایک مشکل صورتِ حال سے گزر رہے ہیں اور ایسے میں ایسے بیانات صورتِ حال کو مزید خراب کر رہے ہیں۔
ریاض کھوکھر نے افغان نائب صدر امراللہ صالح اور مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب پر الزام عائد کیا کہ ان دونوں شخصیات سمیت بعض افغان رہنماؤں کے بیانات حالات کو مزید خراب کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان فوجیوں کے آنے پر بین الاقوامی قوانین اور انسانی ہمدردی کے مطابق ردِعمل دیا۔ پاکستان نے بہترین انداز میں فوجیوں کی میزبانی کی اور انہیں احترام کے ساتھ ان کے ملک واپس بھجوا دیا۔
اُن کے بقول ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا لیکن افغان نائب صدر کی طرف سے اسے پروپیگنڈا اسٹنٹ قرار دینا کسی طور پر درست نہیں۔
ریاض کھوکھر کہتے ہیں کہ پاکستان 30 سے 35 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا چکا ہے۔ لیکن اب موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے مزید افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں ہے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ امر اللہ صالح کے موجودہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے بھارت اور دیگر ممالک کا ہاتھ ہے۔
بین الاقوامی قوانین اور فوجی روایات کیا ہیں؟
اگر کسی ملک کی فوجی دوسرے ملک کی سرحد میں داخل ہوں تو کیا کیا جاتا ہے، اس بارے میں بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ یہ کراسنگ پہلی مرتبہ نہیں ہوئی۔ ماضی میں ہونے والی کراسنگ میں ایک ہزار سے زائد افغان فوجی پاکستانی آئے جنہیں واپس کیا گیا۔ جن ممالک کے درمیان بارڈر مینجمنٹ سسٹم موجود ہوتا ہے اس میں دوسری جانب سے ہاٹ لائن پر باقاعدہ آگاہ کیا جاتا ہے۔
اُن کے بقول اگر کوئی قدرتی آفت ہو یا فوجی کسی صورت میں لڑنا نہ چاہ رہے ہوں تو وہ دوسرے ملک کی سرحد پر فوج سے پناہ مانگ سکتے ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان نے اس بارے میں افغان حکام کو باقاعدہ طور پر آگاہ کیا اور ان تمام فوجیوں کو ان کے ہتھیاروں اور کمیونی کیشن کے آلات سمیت واپس کر دیا ہے۔ اگر کوئی دشمن ملک ہوتا تو فوجی پھر بھی واپس کر دیے جاتے ہیں لیکن ایسے مواقع پر ہتھیار واپس نہیں کیے جاتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دشمن ملک کی طرح نہیں بلکہ دوست ملک کی طرح ان افغان فوجیوں کے ساتھ سلوک کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی فوج کی طرف سے پناہ طلب کیے جانے پر اسے پناہ دی جاتی ہے۔ اسے طبی امداد دی جاتی ہے، خوراک دی جاتی ہے اور حالات بہتر ہونے پر واپس کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھارت میں آپریشن بلیو اسٹار کے دوران بھارت کی طرف سے کچھ سکھ فوجی پاکستانی میں داخل ہوئے تھے اور پاکستان نے جنیوا کنونشن کے مطابق ان فوجیوں کو بھارت کو واپس کر دیا تھا۔