صدر حامد کرزئی نے نو منتخب پارلیمان کا افتتاحی اجلاس بدھ کو بلانے کی تصدیق کر دی ہے جس کے بعد افغانستان میں جاری سیاسی بحران بظاہر حل ہو گیا ہے۔
کابل میں پیر کو صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس بلانے کے لیے پارلیمان کے اراکین نے ایک خط افغان صدر کو بھیجا تھا جو اُنھوں نے سپریم کورٹ بھجوا دیا اور اس کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے ولسی جرگہ کا اجلاس بدھ کو منعقد کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے انتخابی دھاندلیوں کی شکایات سننے والے خصوصی ٹریبونل کو اپنا کام منطقی انجام تک پہنچانے کی ہدایت بھی کی ہے۔
افغان پارلیمان کی 249 نشستوں کے لیے اٹھارہ ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی اور بے قاعدگیوں کے الزامات کی تحقیقات کے لیے افغان صدر حامد کرزئی نے ایک پانچ رکنی عدالتی ٹریبونل تشکیل دے رکھا ہے ۔
خصوصی عدالت نے اپنی کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے گذشتہ ہفتے افغان صدر سے مزید ایک مہینے کا وقت مانگا تھا جو اُسے دے دیا گیا۔ لیکن انتخابات میں کامیا ب ہونے والے اُمیدواروں کی دو تہائی سے زائد اکثریت اس عدالتی ٹریبونل کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر چکی ہے۔
انتخابات جیتنے والے اُمیدواروں کا موقف ہے کہ الیکشن قوانین کے تحت دھاندلی اور دوسرے جرائم سے متعلق مقدمات کی سماعت ملک کی معمول کی عدالتیں ہی کرنے کی مجاز ہیں اور افغانستان کا آئین کسی خصوصی عدالتی ٹریبونل کے قیام کی اجاز ت نہیں دیتا اس لیے یہ عدالت فوری طور پر منسوخ کی جائے۔
کامیاب اُمیدواروں نے گذشتہ جمعہ کو دھمکی دی تھی کی اگر صدر کرزئی نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا تو وہ اُن کے بغیر ہی اولسی جرگہ کا افتتاحی اجلاس منعقد کرنے کے لیے زبردستی پارلیمان کی عمارت میں پہنچ جائیں گے۔
اس سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے صدر کرزئی اپنا روس کا دورہ مختصر کرکے ہفتہ کو وطن واپس پہنچ گئے۔ فریقین کے درمیان اختلافات ختم کرانے کے لیے اتوار کو رات گئے افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے سٹیفن ڈی مِستورا نے بھی منتخب ارکان کے ساتھ مذاکرات کیے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ افغان صدر بظاہر انتخابات کے نتائج سے ناخوش ہیں کیونکہ پچھلی پارلیمان کے مقابلے میں نئے ایوان زیریں میں اُن کے مخالفین کی تعداد زیادہ ہے۔
ولسی جرگہ کے لیے انتخابات جیتنے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق ہزارہ اور تاجک برادری سے ہے جبکہ صدر کرزئی افغانستان کی اکثریتی پشتون آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
خود افغانستان میں الیکشن کا انعقاد کروانے والے عہدے داروں نے بھی خصوصی عدالتی ٹریبونل تشکیل دینے کے صدر کرزئی کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ افغان الیکشن قوانین کے تحت دھاندلی، رائے دہندگان کو ڈرانے دھمکانے اور انتخابی بے قاعدگیوں کے الزامات کی سماعت صرف الیکٹرول کمپلینٹس کمیشن (ای سی سی ) کرسکتا ہے جبکہ افغانستان کے اینڈی پنڈنٹ الیکشن کمیشن(آئی ای سی) کے اعلان کردہ نتائج حتمی مانے جاتے ہیں۔
ای سی سی کے طرف سے دھاندلی اور دوسرے الزامات کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ملک کے آزاد انتخابی کمیشن ،آئی ای سی، نے یکم دسمبر کو پارلیمانی انتخابات کے حتمی نتائج کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔ لیکن افغانستان کے اٹارنی جنرل نے دھاندلی کی شکایات کا جائزہ لینے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے بعد صدر کرزئی نے خصوصی ٹرائی بیونل تشکیل دینے کا اعلان کیا۔