طالبان حکومت نے جمعرا ت کے روز کابل میں چینی کمپنی ’ سی پی ای آئی سی‘ کے ساتھ تیل نکالنے کے معاہدے دستخط کیے ہیں۔ اس موقع پر افغانستان میں چین کے سفیر بھی موجود تھے۔
معدنیات اینڈ پیٹرولیم کے طالبان کے قائم مقام وزیرشہاب الدین دلاور نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ یہ معاہدہ تین شمالی صوبوں ساری پول، جوزجان، اور فریاب میں 4500 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہوگا ۔ یہ دریائے آمو کے طاس کا علاقہ ہے۔
افغانستان میں سرگرم داعش کے جنگجوؤں کی جانب سے کابل کے ایک ہوٹل میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے باوجود یہ افغانستان کی معیشت کے شعبے میں اس کے ہمسایہ ملک چین کی شمولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔
چین نے باضابطہ طور پر طالبان انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اس کے ایک ایسے ملک میں اہم مفادات ہیں جو خطے کے مرکز میں اس کے بیلٹ اینڈ روڈ کے بنیادی ڈھانچے کے لیے اہم ہے۔
معاہدے کے تحت طالبان حکومت اس سرمایہ کاری میں 20 فی صد کی حصے دار ہو گی اور چینی کمپنی تین برسوں میں کل 54 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔
SEE ALSO: افغانستان کے ساتھ تعلقات میں چین کی ترجیح سیکیورٹی کے امور ہیں، ماہرینطالبان کے زیر انتظام انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ چینی کمپنی معاہدے کے تحت افغانستان میں سالانہ 15 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے زیر انتظام انتظامیہ کی اس منصوبے میں 20 فیصد شراکت داری ہوگی، جسے بڑھا کر 75 فیصد کیا جا سکتا ہے۔
2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی بین الاقوامی کمپنی کے ساتھ یہ طالبان حکومت کا پہلا بڑا معاہدہ ہے۔
کابل میں چینی سفیر وانگ یو نے دستخط کی تقریب میں کہا ہے کہ چین افغان عوام کے آزاد انتخاب اور مذہبی عقائد کا احترام کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرتا۔
SEE ALSO: افغانستان میں چین کے مفادات داعش کے نشانے پر کیوں؟طالبان کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر نے بھی اس منصوبے کے لیے اپنی حکومت کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
یہ اعلان طالبان انتظامیہ کی جانب سے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے کہ اس کی فورسز نے چھاپوں میں داعش کے 11 ارکان کو ہلاک اور 7 کو گرفتار کر لیا ہے جن میں وہ ارکان بھی شامل تھے جو گزشتہ ماہ دارالحکومت کابل میں اس ہوٹل پر حملے میں ملوث تھے جہاں چینی شہری قیام کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق افغانستان ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کے قدرتی وسائل موجود ہیں جنہیں وہاں کی خانہ جنگی کے باعث اب تک نکالا نہیں جا سکا ہے۔
چین کی ایک سرکاری کمپنی طالبان انتظامیہ کے ساتھ مشرقی لوگر صوبے میں تانبے کی کان کنی پر بات چیت کر رہی ہے، یہ ایک اور معاہدہ ہے جس پر پہلی بار پچھلی حکومت کے دور میں دستخط کیے گئے تھے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)