سپریم کورٹ نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کیس میں ان کی اہلیہ کی طرف سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں تبدیلی اور کیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کی استدعا مسترد کردی ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کام کر رہی ہے۔ مستقبل میں تفتیش کے نتیجے میں ضرورت محسوس ہوئی تو انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی جاسکتی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کو ارشد شریف قتل کیس کی سماعت کی۔ جہاں ارشد شریف کی اہلیہ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور دیگر حکام پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اس کیس میں جے آئی ٹی نے ملک سے باہر موجود لوگوں سے رابطہ کیا ہے جب کہ کچھ لوگوں سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 15 روزہ پیش رفت رپورٹ جمع کرا دی گئی ہے، جس کے مطابق اب تک 41 لوگوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان کے بقول یہ کیس تین مراحل پر مشتمل ہے، جس میں تحقیقات کینیا، متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں کی جا رہی ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے اب انکوائری کے لیے کینیا جانا ہے، کرسمس اور نیو ایئر کی تعطیلات کی وجہ سے ٹیم نہیں جاسکی۔ اب 15 جنوری تک ٹیم کینیا جائے گی۔ تاہم اس سے قبل وہ یو اے ای بھی جائے گی۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا کینیا کے حکام متعلقہ لوگوں کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اس پر عامر رحمان نے بتایا کہ وزارتِ خارجہ کے ذریعے کینیا کے جن لوگوں سے تحقیقات کرنی ہیں ان کے نام دیے ہیں۔کینیا کے حکام کو گزشتہ روز یہ خط بھجوا دیا گیا ہے، جے آئی ٹی کو وزارت خارجہ کی مکمل مدد حاصل ہے۔
عدالت میں سماعت کے موقع پر ارشد شریف کی اہلیہ روسٹرم پر آئیں۔ انہوں نے عدالت سے بات کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ اس جے آئی ٹی میں اے ڈی خواجہ جیسے افسران کو شامل کیا جائے۔ کیوں کہ ان کے بقول جے آئی ٹی میں شامل تمام لوگ ان افسران کے ماتحت ہیں جن کے نام کیس میں آ رہے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی ریٹائرڈ افسر کو شامل نہیں کریں گے۔ آپ ان کو کام کرنے دیں۔ لوگوں پر اعتماد کرنا چاہیے، ہماری نظر اس ٹیم پر ہے۔ چیف جسٹس نے ارشد شریف کی اہلیہ سے کہا کہ آپ یہاں آیا کریں اور دیکھیں کہ کارروائی کیسے چلتی ہے۔
چیف جسٹس کی بات پر ارشد شریف کی اہلیہ نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی جائیں، جس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ اگر تفتیش کے دوران دہشت گردی ثابت ہوتو اے ٹی اے کی دفعات شامل ہوسکتی ہیں۔
بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کو یہ دیکھنا ہے کہ سب کچھ کیسے ہوا ۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو یہاں ڈسکس نہیں کرسکتے۔امید ہے کہ ٹیم جلد کام مکمل کرکے واپس آئے گی۔
خیال رہے کہ پاکستانی صحافی ارشد شریف کو گزشتہ برس اکتوبر میں کینیا میں قتل کردیا گیا تھا۔ ارشد شریف کی ہلاکت پر پاکستان میں صحافیوں اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج کیا گیا تھا۔ جس کے بعد عدالتی ہدایت پر پانچ رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔
اس سے قبل پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی طرف سے ارشد شریف قتل کیس میں بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا ئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ صحافی ارشد شریف کو 'باقاعدہ منصوبہ بندی' کے تحت قتل کیا گیا۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے کہا تھا کہ کینیا میں ارشد شریف کے میزبانوں خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔
جمعرات کی سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے جن 41 لوگوں سے انکوائری کی کیا وہ پاکستان میں ہیں؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ یہ افراد پاکستان میں ہی ہیں، جو لوگ باہر ہیں ان سے پہلے کینیا جاکر انکوائری ہوگی۔ کینیا میں ان لوگوں سے تحقیقات کے بعد انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بیرون ملک جانے کے لیے جے آئی ٹی کےلیے فںڈز جاری کیےگئے ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کی کچھ ڈرائیوز ہیں، جو ابھی تک نہیں ملیں ان کو میچوئل لیگل اسسٹنٹ کے خط میں شامل کرنا ہوگا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی کو یہ پتا چلا کہ وہ آلات کدھر ہیں؟ پتا چلائیں کہ وہ ڈیجیٹل آلات کینین پولیس، انٹیلی جنس یا ان دونوں بھائیوں کے پاس ہیں، یہ جے آئی ٹی کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو عدالت سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ عدالت میں سماعت کے موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ امکان ہے کہ تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضرورت پڑے گی تو یہ آپشن بھی موجود ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ہم تحقیقات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر رہے ہیں۔ عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لیے آزادی دے رہی ہے۔ معاملے کی صاف اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ عدالت صاف و شفاف تحقیقات کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لیے وزارت خارجہ سے ڈسکس کریں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔