ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بین الاقوامی قرض دہندگان سے اپیل کی ہے کہ وہ سری لنکا کے مصائب کم کرنے کے لیے قرضوں میں ریلیف فراہم کریں کیونکہ اس ملک کے لوگ بھوک، بڑھتی ہوئی غربت اور بنیادی ضروریات کے سامان کی قلت کا شکار ہیں۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق بدھ کے روز لندن میں قائم بین الاقوامی حقوق کے گروپ نے کہا کہ ملک کی سنگین صورتحال نے "لوگوں کی ان کے حقوق تک رسائی کو چھین لیا ہے۔" کئی مہینوں سے سری لنکا ایک شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور ملک اپنے غیر ملکی قرضوں کا نادہندہ ہو چکا ہے۔
لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کے روز سری لنکا پر اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا کہ کئی مہینوں سے سری لنکا کے لوگ خوراک کی شدید قلت کا شکار اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں، جب کہ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی نے عدم مساوات کے پہلے سے موجود صورت حال کو اور بھی بد تر کر دیا ہے۔
لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ قرض دہندگان کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ "ان کی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں اور سری لنکا کے انسانی حقوق کی ذمہ داریاں، سری لنکا کے قرض سے متعلق مستقبل کے کسی بھی وعدے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔
سری لنکا کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو گئےہیں ، تیل، ادویات اور پکانے کے لیے ایندھن جیسی ضروریات زندگی کی قلت ہو گئی ہے ۔ عالمی بینک کی مدد سے کھانا پکانے کے لیے گیس کی فراہمی بحال ہو گئی ہے لیکن تیل ، انتہائی ضروری ادویات اور خوراک کی کچھ اشیا کی قلت بدستور موجود ہے ۔
ایمنیسٹی نے سری لنکا کے رہنماؤں اور بین الاقوامی کمیونٹی پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی معاونت بڑھا کر ، جامع سماجی تحفظ کو یقینی بنا کر اور قرضوں کی منسوخی سمیت ، قرضوں میں چھوٹ کے تمام طریقوں کو زیر غور لا کر ،بحران سے نمٹنے میں مدد کر کے انسانی حقوق کا تحفظ کرے۔
SEE ALSO: سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے 25 سالہ منصوبے کی تجویزاقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر گروپ کی ریسرچر سنہیتا امبسٹ نے کہا، "سری لنکا کے حکام اور بین الاقوامی برادری کو قیمتوں کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر کام کرنا چاہیے، جس نے لوگوں سے ان کے حقوق تک رسائی کو بے دردی سے چھین لیا ہے "۔
جزیرے کے معاشی بحران نے غیر معمولی مظاہروں اور عوامی غیظ و غضب کو جنم دیا جس نے بالآخر صدر گوتابایا راجا پاکسے اور ان کے بھائی سابق وزیر اعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔
کرونا عالمی وبا اور یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سری لنکا کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ ملک میں بہت سے لوگ ماضی میں اقتدار پر قابض طاقتور راجا پاکسے خاندان کو معیشت کو بری طرح سے چلانے اور اسے بحران میں مبتلا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ایمنیسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جون تک لگ بھگ 11 فیصد گھرانوں نے بتایا کہ ان کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے جب کہ 62 فیصد نے کہا کہ ان کی آمدنی کم ہو گئی ہے۔
حکومت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ستمبر میں افراط زر میں 70 فیصد کا ایک ریکارڈ اضافہ ہوا جب کہ خوراک کی قیمتیں دوگنی ہو گئیں۔
SEE ALSO: عالمی بینک کا سری لنکا کے لیے نئی فنڈنگ سے انکارکیمیاوی کھادوں کی در آمدات کی معطلی ،اور ، بظاہر آرگینک فارمنگ کے فروغ کی وجہ سے گزشتہ دو موسموں میں زرعی پیداوارمیں نصف سے بھی زیادہ کمی ہوئی ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کے مطابق ، سری لنکا کے 60 لاکھ لوگوں کو ، جو آبادی کا تقریبا30 فیصد ہیں، اس وقت خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے اور انہیں انسانی ہمدردی کی معاونت درکار ہے۔
سری لنکا کی حکومت قرض دہندگان کے ساتھ ملک کے 51 بلین ڈالر سے زیادہ کے کل غیر ملکی قرضوں کی تنظیم نو پر بات چیت کر رہی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 2 اعشاریہ 9 بلین ڈالر کے ایک ریلیف پیکیج پر کسی معاہدے کا انحصار دوسرے قرض دہندگان کی جانب سے قرضوں کی تنظیم نو کی یقین دہانیوں پر ہے ۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)