امریکہ کی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے کہا ہے کہ وہ متنازع جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس بنانے والی اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ پر مقدمہ کر رہی ہے۔
ایپل این ایس او گروپ پر مقدمہ دائر کرنے والی دوسری کمپنی ہو گی۔ اس سے قبل واٹس ایپ کی مالک کمپنی 'میٹا' جو پہلے فیس بک کہلاتی تھی، نے بھی این ایس او گروپ پر واٹس ایپ صارفین کو نشانہ بنانے کے الزام پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ یہ مقدمہ اب بھی چل رہا ہے۔
خیال رہے کہ اسپائی ویئر سے مراد جاسوسی کرنے کے لیے بنایا گیا سافٹ ویئر ہے۔
ایپل کا دعویٰ ہے کہ اس اسپائی ویئر نے خصوصی طور پر ایپل کے صارفین کو نشانہ بنایا ہے۔ کمپنی کے مطابق وہ چاہتی ہے کہ این ایس او گروپ مستقبل میں ایپل کی سروسز استعمال نہ کر سکے۔
یہ این ایس او گروپ کے لیے کافی سخت اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ کمپنی حکومتوں کو ایسے سافٹ ویئر فروخت کرتی ہے جن کے ذریعے ایپل یا اینڈرائڈ موبائل کے صارفین کے فون ہیک کرکے ان تک مکمل رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
SEE ALSO: بھارت: پیگاسس 'اسپائی ویئر' معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت پر سخت تنقیدایپل کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے سافٹ ویئر میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں کہ پیگاسس اس کی ڈیوائسز کو نشانہ نہیں بنا سکے گا۔
دوسری جانب امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی کمپنی کوپریٹنو کا کہنا ہے کہ وہ بھی این ایس او گروپ سے پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جرمانہ ادا ہونے کی صورت میں کمپنی وہ رقم ایسی تنظیموں کو دینا چاہتی ہے جو اس قسم کے اسپائی ویئر کے خلاف کام کرتی ہیں۔
خیال رہے کہ ایسی ہی ایک کمپنی، سیٹیزن لیب نے پیگاسس کے راز کو افشا کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
ایپل کی سیکیورٹی انجینیئرنگ اور آر کیٹیکچر محکمے کے سربراہ ایوان کرسٹک نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''ایپل کا کہنا ہے کہ اگر آپ یہ قدم اٹھائیں گے اور ایپل کے سافٹ ویئر کو صارفین، محققین اور مخالفین، سیاسی کارکنان یا صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کریں گے تو ایپل انہیں نہیں چھوڑے گا۔''
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی حکومت نے این ایس او گروپ سمیت تین کمپنیوں کو بلیک لسٹ کی فہرست میں شامل کیا تھا اور ان کے امریکہ میں کاروبار پر شدید پابندیاں عائد کی تھیں۔
اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ ان کمپنیوں نے اسپائی ویئر بنانے کے بعد غیر ملکی حکومتوں کو فراہم کیا۔ اس اسپائی ویئر کے ذریعے سرکاری حکام، صحافیوں، تاجروں، سیاسی کارکنان، سفارت کاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
این ایس او گروپ نے اس ہرجانے کے دعوے کے بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ البتہ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
SEE ALSO: پیگاسس سے صحافیوں کی جاسوسی کا معاملہ، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا اقوامِ متحدہ سے رجوع کا اعلاناین ایس او گروپ کے خلاف دباؤ اپنا اثر دکھا رہا ہے اور مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق کمپنی نادہندہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔