پاکستان کی سپریم کورٹ نے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا۔ عدالت نے آرمی چیف کو باضابطہ طور پر فریق بناتے ہوئے جنرل قمر باجوہ، وزارتِ دفاع اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔
آرمی چیف کی توسیع کے خلاف چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے منگل کو درخواست گزار ریاض حنیف راہی کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں عدالت سے آرمی چیف کی توسیع کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت نے اِسے مفاد عامہ کا کیس قرار دیتے ہوئے درخواست کو از خود نوٹس میں تبدیل کر دیا۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ صدرِ مملکت کی منظوری کے بعد آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن جاری ہو چکا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ وہ صدر کی منظوری اور نوٹی فکیشن دکھائیں۔
اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کی صدر کو سفارش عدالت میں پیش کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیرِ اعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار نہیں، یہ صدر کا اختیار ہے۔
'کابینہ کے صرف 11 ارکان نے توسیع کی منظوری دی'
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کی توسیع کی سمری کابینہ کے 25 میں سے صرف 11 ارکان نے منظور دی۔ کیا حکومت نے ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا؟ کیا کہا جا سکتا ہے کابینہ نے اکثریت سے منظوری دی؟
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے مؤقف اختیار کیا کہ کابینہ کے جن وزرا نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں، کیا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے، کابینہ نے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پر ہاں نہیں کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے وزیر اعظم نے آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا لیٹر جاری کیا پھر اُنہیں بتایا گیا آپ یہ نہیں کر سکتے اور 19 اگست کو توسیع کا نوٹی فکیشن جاری ہوا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 19 اگست کو توسیع کا نوٹی فکیشن جاری ہوا تو کیا وزیرِ اعظم نے 21 اگست کو منظوری دی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ کابینہ کی منظوری چاہیے تھی۔
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا "کیا صدر مملکت نے کابینہ کی منظوری سے پہلے توسیع کی منظوری دی اور کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟"
'حکومت صرف ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے'
بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرمی چیف کی توسیع کے لیے رولز میں کوئی شق موجود ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کے لیے کوئی مخصوص شق موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں توسیع لکھا گیا جب کہ نوٹی فکیشن میں آرمی چیف کا دوبارہ تقرر کر دیا گیا۔ قواعد میں آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تقرری کا اختیار نہیں۔ حکومت صرف ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے اور ریٹائرمنٹ ابھی ہوئی نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ علاقائی سیکیورٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کی گئی۔ یہ ایشو تو ہر وقت رہتا ہے اور سیکیورٹی کو تو ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے۔ ایسی کیا ہنگامی حالت ہے کہ توسیع دی جا رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی اختیار توسیع کا اختیار بھی رکھتی ہے، ریٹائرمنٹ کی معطلی تو کچھ دیر کے لیے ہو گی۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے نئی تقرری ہے توسیع نہیں ہے۔
'صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی معطل کیا جاسکتا ہے'
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ "کیا نئی تقرری کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے؟ قانون آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کی اجازت نہیں دیتا اور قانون میں نہ توسیع ہے اور نہ دوبارہ تقرری کا ذکر ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا چھکڑا گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے درخواست گزار آیا نہ اس کا بیان حلفی۔ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے۔ معلوم نہیں درخواست گزار درخواست واپس لینا چاہتا ہے یا نہیں۔
عدالت نے آرمی چیف کی توسیع پر مذکورہ از خود نوٹس کی سماعت بدھ کی صبح تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتِ حال کے پیش نظر آرمی چیف کو توسیع دی جا رہی ہے۔ علاقائی سیکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطور ادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں۔ علاقائی سیکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔
عدالت نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہیں کر سکے۔ کیس میں اٹھنے والے تمام نکات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔